رسائی کے لنکس

کراچی میں بجلی کے بحران سے یومیہ تین ارب روپے کا نقصان


کراچی میں بجلی کے بحران سے یومیہ تین ارب روپے کا نقصان
کراچی میں بجلی کے بحران سے یومیہ تین ارب روپے کا نقصان

ملک میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا بڑھتا دورانیہ لوگوں کی توقعات کے عین مطابق ہے مگر دوسرے شہروں کی نسبت پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی مرکز کراچی میں بجلی کی اس آنکھ مچولی کے اثرات یہاں تجارتی سرگرمیوں پر زیادہ شدت سے محسوس کیے جا رہے ہیں ۔

صدیق میمن کراچی ٹریڈرز ایسو سی ایشن کے صدر ہیں ۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بجلی کے بحران کے باعث کراچی کے تاجروں کو مجموعی طور پر یومیہ تین ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور اس وجہ سے انھیں صرف گزشتہ تین ماہ کے دوران 22 سے 23 ہزار لوگوں کونوکری سے نکالنا پڑا،جو اب بے روز گار پھر رہے ہیں۔

کراچی میں بجلی کے بحران سے یومیہ تین ارب روپے کا نقصان
کراچی میں بجلی کے بحران سے یومیہ تین ارب روپے کا نقصان

ایک اندازے کے مطابق کراچی میں 550 مارکیٹیں ، 84 شاپنگ سینٹرز ، 96 ڈپارٹمینٹل اسٹورزاور 200 کے قریب مختلف بازار ہیں جب کہ صنعتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ صدیق میمن کے مطابق کراچی میں مارکیٹوں کے اوقات صبح 12سے رات دس بجے تک ہے۔ یہاں روزانہ چھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور باقی کے چار گھنٹے وہ متبادل ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم تاجر برادری کی اکثریت صبح دکانیں جلد کھولنے اور رات کو جلد بند کرنے پر تیار دکھائی نہیں دیتی۔

خیال رہے کہ کے ای ایس سی کی جانب سے حال ہی میں تاجروں کو یہ پیشکش کی گئی ہے کہ اگر وہ رات آٹھ بجے مارکیٹیں بند کر دیں تو کے ای ایس سی ان کے علاقوں کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنٰی کر دے گی ۔

لیکن صدیق میمن کو کے ای ایس سی کے وعدوں پر اعتبار نہیں۔ وہ کہتے ہیں” ماضی کے تجربات بڑے تلخ ہیں ۔ ہماری کے ای ایس سی سے پہلے بھی متعدد میٹنگز ہو چکی ہیں اور ہم سے کہا گیا کہ یہ سال بجلی برداشت کر لیں آئندہ سال تجارتی مراکز کو مستثنی قرار دے دیا جائے گا ۔ لیکن بحران بڑھتا ہی گیا۔ ایسے میں اس پیشکش پر تو کے ای ایس سی عمل ہی نہیں کر سکتی۔ اگر کے ای ایس سی رات آ ٹھ بجے مارکیٹیں بند کرانا چاہتی ہے اور ہمیں بجلی کی مسلسل فراہمی دینا چاہتی ہے تو رات کو آٹھ بجے تک ہمیں بجلی دے اس کے بعد بیشک بند کر دے ۔ بعد کے دو گھنٹے ہم جنریٹرز کے ذریعے بجلی استعمال کریں گے ۔ “

کراچی میں بجلی کے بحران پر کیسے قابو پایا جائے کراچی ٹریڈرز ایسو سی ایشن کے صدر صدیق میمن کااس باے میں کہنا ہے کہ حکومت اس حوالے سے جو بھی قدم اٹھاتی ہے وہ بجلی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے تو نہیں البتہ کاروبار کو ختم کرنے کے لیے ضرور ہوتا ہے ۔ ان کے بقول حکومت کو چاہیے کہ سرکاری سطح پر بجلی کے بے دریغ استعمال کو ختم کرکے صنعتی اور تجاری شعبے میں توانائی کے بحران کو حل کیا جائے۔

ادھر سب سے بڑے صوبے پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ کے باعث صنعتی سرگرمیاں متاثر ہونے سے سینکڑوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔

لاہور کے قریب کوٹ لکھپت کے صنعتی علاقے میں جمعے کے روز یہاں کے بے روزگار مزدوروں نے بجلی کی بندش کے خلاف مظاہرہ کیا،ٹائر جلا کر سڑک بند کردی اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔

سیالکوٹ،گوجرانوالہ اور فیصل آباد سے بھی لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہروں کی خبریں ملی ہیں جب کہ ملتان میں بجلی کی بندش کے خلاف ایک بھوک ہڑتالی کیمپ بھی جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG