رسائی کے لنکس

پاکستانی کشمیر میں جبری شادیوں اور وراثت میں خواتین کے حق پر قانون سازی


پاکستانی کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی عمارت۔ فائل فوٹو
پاکستانی کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی عمارت۔ فائل فوٹو

روشن مغل

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے جبری شادی، ونی، سوارہ، اور خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ دینے کے خلاف قانون کی منظوری دی ہے۔

پاکستانی کشمیر کی حکومت کے ترجمان راجہ وسیم نے وی او اے کو بتایا کہ قانون کی منظوری کابینہ کے اجلاس میں دی گئی جس کے تحت جبری شادی اور خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینے پر تین سے دس سال تک قید اور جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔

کابینہ کی طرف سے منظور کیے گئے قانونی مسودے کے مطابق جبری شادی اور ونی یا بدلے سربدلے کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے تین سے سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگئی، جبکہ عورتوں کو وراثت سے حصہ نہ دینے کی سزا پانچ سے دس سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ مقرر کی گئی ہے۔

منظور کیے گئے ان قوانین کو قانون ساز اسمبلی آئندہ اجلاس میں منظوری کیے لئے پیش کیا جائے گا اور منظوری حاصل ہونے کے بعد یہ قوانین نافذالعمل ہوں گے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک قانون دان راحت فاروق کہتی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے ایسے قوانین کا بنانا خوش آئند ہے کیونکہ پاکستانی کشمیر میں اس سے قبل جبری شادیوں اور وراثت میں حصہ نہ دینے خلاف قوانین موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے مذہب میں عورتوں کے لیے وراثت میں حصے کے بارے میں احکامات موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ مذہب سے دوری ہے۔

راحت فاروق نے بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ونی کے واقعات نہ ہو نے کے برابر ہیں۔

پاکستانی کشمیر میں خواتین کی شرح خواندگی پاکستان کی نسبت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود جبری شادی واقعات منظرعام پر آتے رہتے ہیں، اور وراثت میں حصے نہ دینے کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔

XS
SM
MD
LG