رسائی کے لنکس

مسلم لیگ ن کی تنظیم سازی: تعلقات بہتر کرنے کی کوشش


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

مسلم لیگ ن کی جانب سے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کے بعد بہت سے ایسے رہنماؤں کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا ہے، جنہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیانیے کے قریب سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں حال ہی میں اس وقت بڑی تبدیلی رونما ہوئی جب اچانک مسلم لیگ ن کی جانب سے شہباز شریف کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے دستبردار کرنے اور پارلیمانی لیڈر شپ بھی واپس کرنے کا اعلان سامنے آیا۔

خواجہ آصف کو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کا پارلیمانی لیڈر جبکہ رانا تنویز حسین کو شہباز شریف کی جگہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چئیرمین نامزد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

چند روز بعد پارٹی میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا فیصلہ سامنے آیا۔ جس میں احسن اقبال کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل مقرر کئے جانے کے علاوہ دیگر عہدوں پر بھی تقرریاں کی گئیں۔

پارٹی عہدوں میں ردوبدل کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا حالیہ تبدیلیوں کے بعد نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑے رہنے والے پارٹی رہنماؤں کو پارٹی کی باگ ڈور سونپ دی گئی ہے۔

فیصلہ سازی کا اختیار صرف نواز شریف کے پاس ہے

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ ن کے تمام فیصلے نواز شریف ہی کرتے ہیں۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق شریف برادران سمجھتے ہیں کہ انہیں فی الحال پیچھے رہ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق شریف خاندان یہ سمجھتا ہے کہ پارٹی میں نئے چہروں کو مرکزی دھارے میں لانے سے ریاستی اداروں کا غصہ کم ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک متاثر نہیں ہو گا۔ ان کے بقول تحریک انصاف کی معاشی پالیسیاں، مہنگائی، اور ٹیکسوں میں اضافے سے تحریک انصاف کا ووٹر اور کاروباری طبقہ پریشان ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اب مسلم لیگ ن میں دو بیانیے نہیں ہیں۔ شہباز شریف اور نواز شریف کا بیانیہ اب ایک ہے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق نواز شریف کی تمام تر توجہ اپنی صحت کی بحالی کی طرف ہے۔ ان کے بقول شریف خاندان کا موقف ہے کہ صحت ہو گی تو سیاست بھی ہوتی رہے گی۔

کیا تبدیلیاں ناگزیر تھیں؟

سیاسی ماہرین کے مطابق مسلم لیگ ن کے اندر سے موروثی سیاست کے خلاف آوازیں اُٹھتی رہیں ہیں۔ انتخابات کے بعد جب شہباز شریف اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز پنجاب میں اپوزیشن لیڈر بنے تو پارٹی کے اندر اس پر تحفظات تھے۔

سینئر صحافی احمد ولید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پارٹی رہنماؤں کے تحفظات کے باعث شریف برادران نے یہ تبدیلیاں کی ہیں۔ اہم عہدوں پر قابل اعتماد لوگوں کو مقرر کیا گیا تاکہ وہ کہیں ڈگمگا نہ جائیں۔

احمد ولید کے مطابق پارٹی میں یہ بھی باتیں ہو رہی تھیں کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف پارٹی عوامی رائے عامہ ہموار کرنے میں ناکام رہی تھی۔ جبکہ اپوزیشن کی تیسری بڑی جماعت پیپلزپارٹی صورتحال کا فائدہ اُٹھا رہی تھی۔

احمد ولید کے مطابق حالیہ تبدیلیوں سے اشارہ ملتا ہے کہ مریم نواز کے گروپ کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، رانا تنویز، اور خواجہ آصف کو نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے کے قریب سمجھا جاتا ہے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق مسلم لیگ ن کی یہ حکمت عملی ہو سکتی ہے کہ کچھ دیر کے لئے خاموشی اختیار کی جائے۔ اور اس کے بعد صورتحال کو دیکھتے ہوئے پالیسی اپنائی جائے۔

احمد ولید کے مطابق شریف خاندان 8 سال تک ملک سے باہر رہا لیکن ان کا ووٹ بنک متاثر نہیں ہوا تھا۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی کے پیش نظر مسلم لیگ ن کسی بھی مناسب وقت پر اپنے ووٹر کو متحرک کر سکی ہے۔

مسلم لیگ ن کے نئے عہدیدار

جمعہ کی شام مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق صدر ن لیگ شہباز شریف نے تنظیم نو کا اعلامیہ لندن سے جاری کیا۔

اعلامیے کے مطابق مرکزی اور صوبائی سطح پر موجود تنظیموں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ سولہ نائب صدور مقرر کیے گئے ہیں۔

مسلم لیگ ن نے شاہد خاقان عباسی کو سینئر نائب صدر اور احسن اقبال کو جنرل سیکریٹری مقرر کیا ہے۔ بلیغ الرحمان اور عطاءاللہ تارڑ کو ڈپٹی سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا ہے۔

اعلامیے کے مطابق مریم نواز کو مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور مریم اورنگزیب کو سیکرٹری اطلاعات اور ترجمان مقرر کیا گیا ہے۔

رانا ثناء اللہ کو مسلم لیگ ن پنجاب کاصدر مقرر کیا گیا ہے۔ ایاز صادق، عابد شیر علی، برجیس طاہر، حمزہ شہباز، مشاہداللہ خان، پرویز رشید، رانا تنویر، سردار مہتاب اور محمد زبیر ن لیگ کے نائب صدور مقرر ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کی تیرہ رکنی ایڈوائزری کونسل بھی تشکیل دی گئی ہے جس میں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، اسحاق ڈار، احسن اقبال، خواجہ آصف، مشاہد حسین سید، مصدق ملک، قیصر شیخ، محمد زبیر، مفتاح اسماعیل، عائشہ غوث پاشا، علی پرویز ملک اور بلال اظہر کیانی شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG