رسائی کے لنکس

پاکستان میں پولیس پہلے, عدلیہ تیسرے نمبر پر کرپٹ ترین شعبہ ہے: ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل


پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ تقریباً ہر سیاسی جماعت کا نعرہ رہا ہے مگر اس کے باوجود اس میں ہر گزرتے برس کے ساتھ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ عالمی ادارے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں پولیس سب سے کرپٹ ترین شعبہ ہے۔

ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے پاکستان میں ہونے والا 'نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے 2022' جاری کردیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں پولیس کے بعد ٹینڈر اور حکومتی ٹھیکوں کا شعبہ جب کہ تیسرے نمبر پر عدلیہ سب سے زیادہ کرپٹ ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ تعلیم ماضی کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ ہوا ہے اور یہ چوتھا کرپٹ ترین شعبہ ہے۔

کرپشن کی انسداد کے لیے کام کرنے والے ادارے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے گزشتہ 21 برسوں میں چھ مرتبہ یہ سروے کرائے ہیں، جن میں پاکستانی شہریوں کی طرف سے جن شعبوں کو سب سے زیادہ کرپٹ سمجھا جاتا ہے ان کے بارے میں رائے جانی جاتی ہے۔اس سروےمیں پاکستان کے چاروں صوبوں سے 16سو افراد نے حصہ لیا، ہر صوبےسے چار سو افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا ۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان میں تمام ادارے گورننس میں تنزلی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے عوام کا ان اداروں پر اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت میں شامل افراد کی طرف سے اداروں کو مضبوط بنانے اور ان پر حکومتی اثرورسوخ کم کرنے سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔

صوبوں کی سطح پر پاکستان میں کرپشن کو دیکھا جائے تو سروے کے مطابق سندھ میں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔دوسرے نمبر پر پولیس جب کہ ٹینڈرنگ اور حکومتی ٹھیکے تیسرے نمبر پر ہیں۔ پنجاب میں پہلے نمبر پر پولیس، دوسرے پر ٹینڈرنگ اور حکومتی ٹھیکے جب کہ عدلیہ تیسرے نمبر پر کرپٹ سمجھی جاتی ہے۔

خیبرپختونخواہ میں بدعنوانی میں عدلیہ سب سے زیادہ کرپٹ سمجھتی جاتی ہے جب کہ دوسرے نمبر پرٹینڈرنگ اور حکومتی ٹھیکے اور پولیس تیسے نمبر پر ہے۔بلوچستان میں ٹینڈرنگ اور حکومتی ٹھیکے سب سے زیادہ کرپٹ، پولیس دوسرے جب کہ عدلیہ کو تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق قومی سطح پر 45 فی صد لوگ انسداد بدعنوانی کے اداروں کو غیر مؤثر مانتے ہیں۔سندھ میں صرف 35 فی صد پاکستانیوں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے کردار کو بدعنوانی کی روک تھام میں مؤثر سمجھا۔ پنجاب30 فی صد، خیبر پختونخوا میں 9 فی صد اور بلوچستان میں 12 فی صد پاکستانیوں نے اس ادارے کو موثر سمجھا۔

قومی سطح پر پاکستانی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مختلف خدمات سر انجام دینے والے محکمے بہت زیادہ کرپٹ ہیں۔ ان میں سڑکوں کی تعمیر میں شامل محکموں کے بارے میں 40 فی صد لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کرپٹ ترین ہیں اور اس میں شامل تمام افراد کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ دوسرے نمبر پر 28 فی صد کے ساتھ بجلی کی فراہمی کے محکمے اور تیسرے نمبر پر 17 فی صد کے ساتھ پینے کا صاف پانی فراہم کرنے والے محکمے شامل ہیں۔

سروے کے مطابق بدعنوانی کی تین اہم ترین وجوہات ہیں، جن میں سب سے پہلے کرپشن کیسز کے فیصلوں میں تاخیر، حکومت کا ذاتی فائدوں کے لیے ریاستی اداروں کو استعمال کرنا اور حکومتی نااہلی شامل ہیں۔

بدعنوانی کو روکنے کے اقدامات کیا ہونے چاہئیں؟ اس پر 33فی صد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ اس جرم کی سزا عمر قید ہونی چاہیے، 28فی صد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ تمام سرکاری افسران، سیاسی رہنماؤں، فوجی افسران، ججز وغیرہ کو اپنے اثاثے عوام کے سامنے ظاہر کرنے چاہئیں جب کہ 25 فی صد کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے کیسز کی سماعت نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن میں ہونی چاہیے اور روزانہ کی بنیاد پر عدالتیں سماعت کریں اور 6 ماہ میں فیصلہ سنائیں۔

اس سروے کے دوران گذشتہ کچھ عرصے میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد فنڈز کے استعمال اور سیلاب سے نمٹنے میں شفافیت اور احتساب کے بارے میں بھی سوال پوچھا گیا۔ سروے کے مطابق قومی سطح پر تقریباً 62 فی صد پاکستانی مقامی این جی اوز کے کردار کو مؤثر سمجھتے ہیں۔ اس بارے میں سندھ میں 62 فی صد ، پنجاب میں 54 فی صد، خیبرپختونخوا میں 79 فی صد اور بلوچستان میں 52 فی صد شہریوں کا خیال ہے کہ مقامی این جی اوز نے اچھا کام کیا۔

البتہ قومی سطح پر 70 فی صد کا خیال ہے کہ سیلاب کے دوران آنے والے فنڈز اور امداد شفاف طریقے سے تقسیم نہیں کی گئی۔ 60 فی صد کا خیال ہے کہ سیلاب کے دوران دی جانے والی امداد اور این جی اوز کے کردار کو مزید شفاف ہونا چاہیے۔

ادارے کے سروے کے مطابق 77 فی صد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ انہیں حکومتی اداروں سے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔ 66 فی صد پاکستانیوں کی سوچ ہے کہ پاکستان کو 2019 میں ہونے والے آئی ایم ایف معاہدے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔

اس کے علاوہ 54 فی صد پاکستانی نیوز ٹی وی چینلز کو جانب دار سمجھتے ہیں۔ صوبائی سطح پر خیبرپختونخوا میں 61 فی صد اور بلوچستان میں 53 فی صد لوگوں کا کہنا ہے نیوز چینلز غیرجانبدار ہیں۔ البتہ سندھ میں 72 فی صد اور پنجاب میں 59 فی صد لوگ انہیں جانب دار سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں صرف اشرافیہ کو انصاف مل رہا ہے: جسٹس (ر) وجیہ الدین

عدلیہ میں کرپشن اور تیسرے نمبر پر کرپٹ شعبہ سمجھے جانے پر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہ الدین نے کہا کہ یہ سروے عام طور پر بڑے شہروں تک محدود ہوتے ہیں۔ ان کے بقول عدلیہ کے بارے میں سوالات اٹھتے رہے ہیں اور اب زیادہ اٹھ رہے ہیں، اس کی بڑی وجہ ان کے خیال میں عام لوگوں کا انصاف سے محروم ہونا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اشرافیہ کو 'آؤٹ آف دی وے' جا کر انصاف دیا جارہا ہے، ان کے خیال میں اس تاثر کی بڑی وجہ یہ ہے۔

جسٹس وجیہ نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدلیہ کو اس معاملہ میں کس نمبر پر رکھا جائے کیوں کہ میرے نزدیک پاکستان میں سب سے زیادہ کرپٹ پاکستان کی بیوروکریسی ہے جسے پہلے نمبر پر ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کے معاملات سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ زیادہ تر معاملات اور الزامات ڈسٹرکٹ اور سیشن کی سطح پر ہوتے ہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی جو کچھ پڑھا لکھا ہے اور خبریں دیکھتا ہے، سوشل میڈیا دیکھتا ہے اس کو جب نظر آتا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں اشرافیہ کو معمول سے ہٹ کر انصاف دے رہی ہیں اور یہ معاملہ بڑھتا ہی جارہا ہے تو وہ پوری عدلیہ کو کرپٹ سمجھتا ہے۔

پولیس کو درست کرنے والے اس کام کو تیار نہیں: افضل شگری

سابق انسپکٹر جنرل پولیس سندھ افضل شگری نے پولیس کے سب سے زیادہ کرپٹ سمجھے جانے کے تاثر کے بارے میں کہا کہ اس کی ایک وجہ تو موروثی ہے کہ ایک آدمی شکایت کنندہ ہوتا ہے اور ایک ملزم ہوتا ہے ، جس میں پولیس کسی ایک کی طرف بھی ایکشن لے تو دوسرا لازمی طور پر ناراض ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں پولیس کے بارے میں ایسا ہی سوچا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں کرپشن کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے پولیس کو لوگ زیادہ برا سمجھتے ہیں۔

ان کے بقول دوسری بڑی وجہ ہے کہ ہماری پولیس کو بہت زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے ، اس سلسلے میں پولیس کا اندرونی احتساب کا مضبوط نظام بنایا جائے ، اصلاحات لائی جائیں لیکن سیاسی طور پر یہ کسی بھی حکومت کو قابل قبول نہیں ہیں کیوں کہ سیاسی رہنما پولیس کا استعمال کرتے ہیں اور اگر احتساب کا نظام لاگو ہوگیا تو وہ خود بھی پھنس سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے کوئی بھی ادارہ یا شخص پولیس میں اصلاحات لانے کے لیے تیار نہیں۔

افضل شگری نے کہا کہ تاثر بنانے میں ایک بڑا کردار میڈیا کا بھی ہے۔ اکثر کوئی معمولی سا معاملہ سوشل میڈیا پر آجاتا ہے اور اس کی تصدیق کیے بغیر اسے بہت زیادہ پھیلا دیا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی پولیس کا تاثر ہے کہ پولیس اہلکار عام لوگوں سے اخلاق سے پیش نہیں آتے اور مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتے لہٰذا کوئی معمولی سی بات سامنے آئے تو اسے بہت بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا ہے۔

کیا پاکستان سے کرپشن ختم ہو سکتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:59 0:00

انہوں نے دیگر اداروں کے بدعنوان ہونے کے تاثر کے بارے میں کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے بیشتر اداروں کی کارکردگی بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت کوئی ایک ادارہ ایسا نہیں جس پر کوئی مکمل یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ یہ کرپشن فری ہے۔

ان کے بقول ماضی میں پاکستان کی بیوروکریسی کو ملازمتیں دینے والے فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور صوبائی سروس کمیشن کو بہت اچھا سمجھتا جاتا تھا اور ان کے انتخاب کو درست سمجھا جاتا تھا لیکن'' اب اس میں بھی سفارش اور کرپشن کا عنصر شامل ہوگیا ہے اور اب انہیں بھی درست نہیں سمجھتا جاتا۔''

قیادت عوام کے ساتھ منصفانہ رویہ نہیں رکھتی: جسٹس (ر) ناصرہ اقبال

ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان کی وائس چیئرپرسن جسٹس (ر)ناصرہ اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں انتشار بہت زیادہ پھیل چکا ہے ، اور لوگوں کو قیادت کے مخلص ہونے پر یقین نہیں ہے

انہوں نے کہا کہ اس کی ایک بڑی مثال حالیہ سیلاب ہے، جس میں حکومت اور اداروں کی طرف سے اعلانات تو بہت کیے گئے۔ لیکن جب ان علاقوں میں کوئی جائے تو وہاں لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ ملا ہی نہیں۔ ان کے بقول یہ صورتِ حال قیادت کی وجہ سے ہے۔ قیادت عوام کے ساتھ منصفانہ رویہ نہیں رکھتی جس کی وجہ سے لوگ اعتبار نہیں کرتے۔

جسٹس (ر) ناصرہ اقبال نے کہا کہ ایک اور بڑی وجہ لوگوں کی تربیت ہے۔ مہنگائی کے ستائے عوام کی ایک بڑی تعداد صرف ایک وقت کی روٹی کی پریشانی میں مبتلا ہیں اور ان کا دھیان اخلاقیات اور تربیت کی طرف ہے ہی نہیں۔ ایک والدہ اور ایک والد دن رات محنت کرکے اپنے بچوں کو صرف پال رہے ہیں۔

ان کے بقول اس کے بعد تعلیم کا شعبہ جو اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے وہ بھی تنزلی کا شکار ہے۔ جب ایک بچے کو گھر سے تربیت نہ ملے، اسکول سے تعلیم نہ ملے تو پھر اگلی نسل کا کیا حال ہوگا۔ ہمارا آئین کہتا ہے کہ بچوں کو تعلیم دینا ریاست کا فرض ہے لیکن اسکولوں میں بھینسیں بندھی ہیں یا شادی ہال بنے ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ اخلاقیات کا ہے جس کی طرف کسی کا کوئی دھیان ہی نہیں ہے۔

اس رپورٹ کے حوالے سے اب تک حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم حکومت ماضی میں پولیس اور عدلیہ سمیت مختلف اداروں میں بدعنوانی کے خاتمہ کے حوالے سے اقدامات کرنے کا کہتی رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG