رسائی کے لنکس

پیپلز پارٹی کا سابق فوجی صدر مشرف کے خلاف ”قانونی کارروائی“ کا فیصلہ


پیپلز پارٹی کا سابق فوجی صدر مشرف کے خلاف ”قانونی کارروائی“ کا فیصلہ
پیپلز پارٹی کا سابق فوجی صدر مشرف کے خلاف ”قانونی کارروائی“ کا فیصلہ

وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے بھی اتوار کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر آئندہ 24 گھنٹوں میں عمل درآمدشروع ہو جائے گا۔

صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے مقامی میڈیا کو بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیاگیا ہے کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے حقائق سے متعلق اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف سمیت تمام سرکاری افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے بھی اتوار کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر آئندہ 24 گھنٹوں میں عمل درآمدشروع ہو جائے گا ۔

جب کہ سابق فوجی صدرپرویز مشرف کے قریبی ساتھی اور اُن کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس معاملے میں سابق فوجی صدر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی کیوں کہ اُن کے بقول اقوام متحدہ کے کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ نہ تو پرویزمشرف پر کوئی الزام لگایا گیا ہے اور نہ ہی اُنھیں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کامرتکب ٹھہرایا گیا ہے۔

بے نظیر بھٹو 27دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے میں شرکت کے بعد خودکش حملے میں ہلاک ہو گئیں تھیں، اور جولائی 2009ء میں حکومت پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی تین رکنی ٹیم نے سابق وزیراعظم کے قتل کے محرکات جاننے کے لیے اپنا کام شروع کیا تھا اور تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ رواں ہفتے 15 اپریل کو پیش کی تھی۔

رپورٹ پر اپنے فوری ردعمل میں صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی بے نظیر بھٹو قتل کی تحقیقاتی رپورٹ سے پیپلز پارٹی کے اس مئوقف کی تائید ہوتی ہے کہ اس وقت مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے بے نظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم نہیں کی تھی اور جائے وقوعہ سے شواہد بھی فوری طور پر مٹا دیے گئے جس کی وجہ سے تحقیقات میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔

اُدھر صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے اتوار کو سرکاری خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد اٹھارویں آئینی ترمیم پر صدر آصف علی زرداری پیر کو دستخط کردیں گے جس کے بعدیہ آئینی اصلاحات 1973 ء کے آئین کا حصہ بن جائیں گی۔

فرحت اللہ بابر نے یہ بھی بتایا کہ صدر آصف علی زرداری نے حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف سے بھی ٹیلی فون پر بات کی اور اُنھیں ایوان صدر میں ہونے والی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی جو نواز شریف نے قبول کر لی۔

اٹھارویں ترمیم کی آئین میں شمولیت کے بعد فوجی حکمرانوں کے ادوار میں ایوان صدر کو منتقل کیے گئے اہم اختیارات پارلیمان اور وزیر اعظم کو واپس مل جائیں گے اورصدر کا عہدہ ایک علامتی سربراہ مملکت کا عہدہ بن جائے گا۔

XS
SM
MD
LG