رسائی کے لنکس

نیوزی لینڈ کی حاملہ رپورٹر نے وطن واپسی میں مشکلات کے دوران کابل کو گھر بنا لیا


 چارلٹ بیلس
چارلٹ بیلس

نیوزی لینڈ کی اس حاملہ رپورٹر نے جو افغانستان کے اندر ماؤں اور بچوں کے لیے مشکل حالات کے بارے میں رپورٹنگ کرتی رہی ہیں، خود اپنے قیام کے لیے کابل کا انتخاب کیا ہے جب وہ کووڈ نائنٹین سے متعلق پابندیوں کے سبب اپنے ملک لوٹنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔

پنتیس سالہ شارلٹ بیلس اپنے ساتھی فری لانس فوٹوگرافر جیم ہیولبروک سے اپنے پہلے بچے کی ماں بننے والی ہیں۔ جیم ہیولبروک بیلجیم کا باشندہ ہے اور وہ دو سال سےافغانستان میں مقیم ہے ۔بیلس نے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ہر آنے والا دن ان کے لیے ایک سخت جنگ لڑنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ویکسین کے تین ڈوز لگوا چکی ہیں اور نیوزی لینڈ واپسی پر خودکو الگ تھلگ کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

بیلس کے بقول ’’یہ مضحکہ خیز ہے (کہ میں نیوزی لینڈ نہیں جا پا رہی)، نیوزی لینڈ جانا میرا قانونی حق ہے جہاں مجھے صحت کی دیکھ بھال کی سہولت دستیاب ہے، جہاں میرا خاندان ہے، مجھے وہاں ہر طرح کی مدد مل سکتی ہے‘‘۔

بیلس نے پہلی بار خود کو درپیش مشکلات کے بارے میں ہفتے کے روز دی نیوزی لینڈ ہیرالڈ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں تٖفصیل سے مضمون لکھا تھا۔ نیوزی لینڈ کے کرونا وائرس سے متعلق وزیر کرس ہپکنز نے ہیرالڈ کو بتایا کہ ان کے دفتر نے متعلقہ حکام سے معلوم کیا ہے کہ بیلس کے مسئلے میں مناسب طریقہ کار پر عمل کیا گیا یا نہیں۔ ان کے بقول جو ابتدائی معلومات ملیں ، اس میں بتایا گیا ہے کہ اس میں مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔

بیلس افغانستان میں قطر کے سٹیلائٹ ٹیلی ویژن الجزیرہ کی نمائندہ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ اکتوبر میں انہوں نے الجزیرہ سے استعفی دے دیا تھا کیونکہ قطر میں غیر شادی شدہ خاتون کا حاملہ ہونا غیر قانونی ہے۔ الجزیرہ نے فوری طور پر اس پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

پھر بیلس بیلجیم چلی گئیں اور وہاں مستقل سکونت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے بتایا کہا کہ یہاں رہائش کی اجازت حاصل کرنے کے عمل کی طوالت کے باعث ان کا ویزہ زائدالمیعاد ہو جانا تھا۔ وہ نیوزی لینڈ واپسی کی کوششوں کے دوران سیاحتی ویزے پر ایک کے بعد دوسرے ممالک جاسکتی تھیں لیکن انہیں ہوٹلوں میں کثیر رقم خرچ کرنا پڑتی اور صحت کی سہولت بھی میسر نہ ہوتی۔

اس صورتحال میں آخر کار بیلس اور ان کے دوست افغانستان واپس آگئے کیونکہ ان کے پاس یہاں کا ویزہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا یہاں خیر مقدم کیا گیا۔ یہاں سے وہ اپنے وطن لوٹنے کی کوششیں جاری رکھ سکتی ہیں ۔ اب افغانستان میں ان کے پاس ایک گھر ہے۔ بیلس کہتی ہیں کہ وہ تمام امکانات کا جائزہ لینے کے بعد کابل واپس آئی ہیں۔

بیلس کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان سے روانگی کے لیے ایک ڈیڈلائن مقرر کی ہے کہ جب ان کا حمل 30 ہفتوں کا ہو جائے گا تب وہ سفر کریں گی تاکہ وہ خود کو اور بچے کو محفوظ رکھ سکیں۔

بقول ان کے ’’ میں فروری کےآخر تک یہاں ہوں۔ اس وقت تک ان کے بیلجیم کے ویزے کی ایک ماہ سے زائد کی مدت باقی ہو گی۔ اس لیے اگر اس وقت تک بھی نیوزی لینڈ واپس جانے میں ناکام رہی تو دوبارہ اس ملک میں داخل ہوسکوں‘‘۔

انہوں نے کہا کہ وہ نیوزی لینڈ کے قرنطینہ نظام کے دستاویزات کی جنگ لڑتے ہوئے پرسکون رہنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن انہیں فکر ہے کہ یہ ان کا ذہنی دباو ان کے ہونے والے بچے پر اثر نہ ڈالے۔ "

بیلس نے ایک افغان گائناکولوجسٹ تلاش کرلیا ہے، جس نے ان سے کہا ہے کہ رات میں بھی تکلیف ہو تو انہیں فون کر لیں، بیلس ڈاکٹر کی کلینک بھی گئیں جہاں انکیوبیٹر سمیت بنیادی سہولتیں موجود تھیں ۔

بیلس کو ایک پروبونو وکیل بھی مل گیا ہے جو اس کا کیس دیکھ رہا ہے اور ساٹھ سے زیادہ دستاویزات نیوزی لینڈ حکومت کو جمع کراچکا ہے اور ان گنت سوالوں کے جواب بھی دیے ہیں۔

اتوار کو انہیں نیوزی لینڈ حکومت سے ایک تازہ ترین ای میل موصول ہوئی جس میں کہاگیا ہے کہ وہ خطرے سے دوچار شخص کے طور پر درخواست دیں تو وہ اپنے گھر لوٹ سکیں گی۔ بیلس نے کہا کہ ان کی پہلی درخواست مسترد کردی گئی تھی کیونکہ ان کا کیس خطرے کی حدود کے معیار پر پورا نہیں اتر رہا تھا ۔ انہوں نے سوال کیا کہ" اگر میں بحیثیت حاملہ عورت خطرے کے معیار پر پورا نہ اترتی تو پھر کون اس معیار پر اترے گا‘‘۔"

بیلس نے کہا کہ افغانستان آنے سے پہلے انہوں نے طالبان سےاجازت لی،انہیں آتے ہوئے کچھ خدشات تھے کہ شادی شدہ نہ ہونے اور حاملہ ہونے کے سبب انہیں پریشانیاں ہوسکتیں ہیں۔ لیکن طالبان کا ردعمل ان کےبقول مثبت اور فوری مدد والا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں اس بات کو سراہوں گی کہ یہ طالبان کی سرکاری پالیسی نہیں لیکن وہ بہت فیاض اور مہربان تھے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’تم یہاں محفوظ ہو، مبارک ہو، ہم تمہیں یہاں خوش آمدید کہتے ہیں‘‘۔

اپنے اگلے اقدام کے طور پر بیلس نے کہا کہ وہ سوچ رہی ہیں کہ نیوزی لینڈ کی تازہ پیشکش کو قبول کریں یا نہیں کیونکہ اس صورت میں نئی پیشکش کے مطابق درخواست دینے سے حکومت پہلے دی ہوئی درخواست کے مسترد کئےجانے کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے انہیں موقع ملے گا کہ اپنی ذمہ داری سے بچ جائیں حالانکہ یہ درست نہیں ہے، حکومت کی موجودہ کرونا وائرس سے متعلق پالیسی سے دنیا بھر میں کتنے ہی لوگ محصورہو کر رہ گئے ہیں اور انہیں اپنے گھروں کو لوٹنےکی کوئی راہ نہیں مل رہی۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG