رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے، قومی قرضوں پر جاری بحث اور فلسطین کا تنازع


امریکی اخبارات سے، قومی قرضوں پر جاری بحث اور فلسطین کا تنازع
امریکی اخبارات سے، قومی قرضوں پر جاری بحث اور فلسطین کا تنازع

یہ کہنا درست نہیں ہے کہ قرض کی حد میں اضافے سے کسی کو یا صدر کو کوئی بلینک چیک مل جائے گا بلکہ قرض کی حد میں اضافے سے حکومت کو اپنے پہلے سے طے کردہ اخراجات کی ادائیگی کے لیے بانڈز فروخت کرنے کی اجازت مل جائے گی۔

اخبار بوسٹن گلوب نے امریکی کانگریس میں بجٹ کے قرضوں اور خساروں پر جاری بحث کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ قرضو ں کے بحران اور اس بحران پر جاری بحث کی وجہ سے پیدا ہونے والے ایک طرح کے سیاسی بحران نے تمام امریکیوں کو گویا ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ ماہرین اقتصادیات اس پر بھر پور طریقے سے متفق ہیں اور یہ صدر اوباما اور کانگریس کی دونوں جماعتوں کے راہنماؤں کا بیان کردہ مقصدہے کہ نہ صرف یہ کہ قرضوں کی حد میں اضافہ ہونا چاہیے بلکہ موجودہ سیاسی بحران پر بھی اس حد تک قابو پانے کی ضرورت ہے کہ عالمی مالیاتی منڈیوں کو یہ یقین دہانی کرائی جا سکے کہ امریکہ ہمیشہ اپنے قرضے اور ذمہ داریاں ادا کرے گا۔

تاہم اخبار لکھتا ہے کہ ایوان نمائندگان کے کچھ ری پبلکنز کی جانب سے قرض کی حد میں اضافے سے انکار جب کہ کچھ دوسروں کی طرف سےانتہائی غیر حقیقت پسندانہ مطالبوں کی حمایت پر اصرارا س پورے عمل میں تعطل کی وجہ بنی ہے اور اس سے مسئلےکی ایک غلط اور گمراہ کن تصویرپیش ہوئی ہے ۔

اخبار لکھتا ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ قرض کی حد میں اضافے سے کسی کو یا صدر کو کوئی بلینک چیک مل جائے گا بلکہ قرض کی حد میں اضافے سے حکومت کو اپنے پہلے سے طے کردہ اخراجات کی ادائیگی کے لیے بانڈز فروخت کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ اس سے اخراجات میں اضافہ نہیں ہو گا۔ اس سے مزید قرض لینے کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی ۔ اگر حکومت کم خرچ کرے گی تو وہ کم ادھار لے گی خواہ قرض کی حد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو ۔ اخبار لکھتا ہے کہ قرضوں کی حدمیں اضافہ نہ کرنے سے نہ صرف مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ یہ اس صورت میں مزید بگڑ جائے گا جب ملک کی کریڈٹ ریٹنگ کم ہو جائے گی اور موجودہ بلوں کی ادائیگی کے لیے سود کی شرحوں میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔

امریکی ایوان زیریں کے اسپیکر جان بنیر
امریکی ایوان زیریں کے اسپیکر جان بنیر

اخبار لکھتا ہے کہ حکومتی بلوں کی ادائیگی بحث کا کوئی موضوع نہیں ہے یہ منتخب شاخوں اور خاص طور پر ایوان نمائندگان کی ذمہ داری ہے جہاں بجٹ کا عمل شروع ہوتا ہے ۔ اور تمام حکومتی شاخوں کے درمیان اتفاق رائے کی کوشش کوئی رعایت نہیں بلکہ ایک ضرورت اور امریکی طرز حکومت کی بنیاد ہے ۔

تاہم اخبار لکھتا ہے کہ حکومت کے اخراجات پر قابو پانے اور فلاحی پروگراموں کو برقرار رکھنے کے بہت سے اہم فیصلے بظاہر اگلے انتخابات تک موخر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو اخبار لکھتا ہے کہ ووٹروں کو موجودہ بحران سے کچھ سبق سیکھنے ہوں گے ۔ ان کے نظریات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں انہیں چاہیے کہ وہ نعروں کی بجائے پالیسیوں کی حمایت کریں اور ایسے نمائندے منتخب کریں جو بحث و تمحیص کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری رکھنے کی بجائے حکومت چلانے کی ذمہ داریاں قبول کریں ۔

اور اخبار شکاگو ٹریبیون نے اپنے ایک اداریے میں امریکی قرضوں کی حد میں اضافے کی بحث ہی کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بحث جو بھی جیتے گا اس سے امریکی قرض میں 17 ٹریلین ڈالر تک اضافہ ہو گا۔ا ور یہ قرض آخر کار آنے والی امریکی نسلوں کو چکانا ہو گا۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگر ووٹروں کو یہ احساس ہو گیا کہ بجٹ کے ان تمام فیصلوں کا مطلب ان کی جانب سے ممکنہ طور پر کوئی گھمبیر قربانی ہے تو وہ مالیاتی ضابطے میں اپنی دلچسپی کھو دیں گے ۔ اور ممکن ہے کہ وہ ا س کا حساب انتخابات میں چکا دیں ۔ اس لیے اخبار لکھتا ہے کہ ضروری ہے کہ اس مسئلے کا ا بھی اور اسی وقت کوئی حل تلاش کر لیا جائے۔ا ٓگے چل کر اخبار لکھتا ہے کہ منتخب راہنما مسئلے کی اصل وجوہات پر توجہ نہیں دے رہے اور وہ ہیں وفاقی حکومت کے تین فلاحی پروگرام ، سوشل سیکیورٹی ، میڈی کئیر اور میڈی کیڈ ۔ جو کل بجٹ کے چالیس فیصد پر محیط ہیں ۔ اخبار لکھتا ہے کہ قرض کی حد چاہے کچھ ہی کیوں نہ طے ہو ، مستقبل میں ہمیں اہم فیصلے کرنے ہوں گے اور اگر ماضی سے کوئی بھی سبق سیکھا جا سکتا ہے تو ہمیں مسائل کی اصل وجوہات پر توجہ دینا ہوگی ۔

امریکی اخبارات سے، قومی قرضوں پر جاری بحث اور فلسطین کا تنازع
امریکی اخبارات سے، قومی قرضوں پر جاری بحث اور فلسطین کا تنازع

اخبار لکھتا ہے کہ یہ بحث طویل اور تھکا دینے والی تو ہے لیکن وہ اس توقع کا اظہار کرتاہے کہ جب یہ بحث بینر یا ریڈ کے منصوبے یا کسی بھی طریقے سے آخر کار کسی نتیجے تک پہنچے گی تو بہت سود مند ہوگی ۔ اور اس کے نتیجے میں ہم سخت فیصلے کرکے اور وفاقی حکومت کو اپنے وسائل میں رہنے پر مجبور کر کے بجٹ کے اپنے بحران پر قابو پا لیں گے ۔

اخبار نیو یارک پوسٹ فرانسیسی صدر نکولا سرکوزی کی حکومت کے گزشتہ ہفتے کے ایک بیان کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئےلکھتا ہے کہ فرانسیسی وزیر خارجہ Alain Juppe نے کھلم کھلا یہ بیان دیا کہ مشرق وسطیٰ کا تنازعہ یہویوں کے لیے اسرائیل کی قومی ریاست سمیت، دو نوں جانب کے لوگوں کے دو مملکتی ریاستوں کو تسلیم کئے بغیر حل نہیں ہو گا ۔

مغربی کنارے میں واقع یہودی بستیاں
مغربی کنارے میں واقع یہودی بستیاں

اخبار لکھتا ہے کہ برسوں سے اسرائیل کی یہ شرط رہی ہے کہ فلسطینیوں کو ایک یہودی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنا چاہیے اور پورے اسرائیل پر اپنے دعوے ختم کرنے چاہیں ۔ جب کہ یہ ہی وہ بات ہے جسے فلسطینی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں ۔ تاہم اخبار لکھتا ہے کہ مسٹر یوپے کا بیان فرانس کو وہ پہلا ملک بنا دیتا ہے جس نے کھلم کھلا کہا ہے کہ کسی بھی معاہدے میں اسرائیل کے یہودی خاصے کو تسلیم کرنا چاہیے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ فرانس اسپین ، بلجیم اور آئرلینڈ اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سر براہ کیتھرین ایشٹن کی جانب سے اس موقف کی مخالفت ہوتی رہی ہے ۔ اور چار کا گروپ کہلانے والے امریکہ یورپی یونین اقوام متحدہ اور روس کے درمیان اس شرط پر اختلاف موجودہے۔

تاہم اخبار لکھتا ہے کہ بہت عرصے بعد یورپ کے کسی ملک نے مشرق وسطیٰ کے امن کے جائز عمل میں حقیقت کو شامل کیا ہے اور یہ کہ مشرق وسطی میں امن مذاکرات کے مستقبل پر اس کا گہرا اثر پڑ سکتا ہے ۔

XS
SM
MD
LG