رسائی کے لنکس

اشیائے خوردنی کی قیمتیں دنیا بھر میں بڑھی ہیں: تجزیہ کار


اشیائے خوردنی کی قیمتیں دنیا بھر میں بڑھی ہیں: تجزیہ کار
اشیائے خوردنی کی قیمتیں دنیا بھر میں بڑھی ہیں: تجزیہ کار

اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافے کا سبب حکومتوں کا جاگیرداروں سمیت مراعات یافتہ طبقے پر مہربان رہنا ہے اور یہ چیز زرعی اجناس کی قیمتوں میں اجارہ داری کا سبب بنتی ہے۔ عوام کو رلیف دینا صرف ایک نعرہ ہے: ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

’آکسفیم ‘کی اُس رپورٹ پر جِس میں کہا گیا ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کم خوراکی کا شکار ہے، اپنے ردِ عمل میں رکنِ پارلیمنٹ فوزیہ حبیب نے، جو کہ حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی بھی رکن ہیں، کہا ہے کہ حالیہ اقتصادی بحران کے سبب اشیائے خوردنی کی قیمتیں صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بڑھی ہیں۔

جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں فوزیہ حبیب نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اِس لیے پاکستان میں بھی یہ اضافہ آیا ہے ۔ اِس کے علاوہ، اُنھوں نے پچھلے سال کے سیلاب اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کےباعث اُٹھنے والے نقصانات کا بھی ذکر کیا۔

اقتصادیات کے ماہر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافے کا سبب حکومتوں کا جاگیرداروں سمیت مراعات یافتہ طبقے پر مہربان رہنا ہے اور یہ چیز زرعی اجناس کی قیمتوں میں اجارہ داری کا سبب بنتی ہے۔ اُن کے بقول، عوام کو رلیف دینا صرف ایک نعرہ ہے۔

رابعہ سلطان کسانوں کی ایک تنظیم ’فارمرز ایسو سی ایشن آف پاکستان‘ کی ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا سبب حکومتی سبسڈی کے خاتمے کے باعث ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہر سال پاکستان میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے جِس کی سب سے بڑی وجہ افراطِ زر ہے۔ اِس کی وجہ سے عام آدمی کی استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ ایک متوازن خوراک خرید سکے۔ کاشتکار کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ ایک طرف پیداواری لاگت بڑھتی جارہی ہے جب کہ سبسڈی بالکل نہیں ہے، جِس کے باعث چیزیں مہنگے داموں بیچی جارہی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی راہنما فوزیہ حبیب کا کہنا تھا کہ حکومتِ وقت عام آدمی کے مسائل سے غافل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں یوٹلٹی اسٹورز اور خصوصی بازاروں کے ذریعے کم نرخوں پر اشیائے خوردنی عوام کو فراہم کرنے کے منصوبے زیرِ عمل ہیں اور یہ سب کچھ سبسڈیز کی ہی ایک صورت ہے۔ اُن کے بقول، یوٹلٹی اسٹورز پر فراہم کی جانے والی اشیائے خورنی پر بھی سبسڈی دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر شاہد حسن کے بقول، ملک میں کرپشن اور ٹیکسوں کا ناقص نظام بالواسطہ طور پر عام آدمی پر بوجھ بنتا جا رہا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان میں اِس وقت سالانہ 22 ارب ڈالر کی ٹیکس کی چوری ہورہی ہے، بدعنوانی سے سالانہ 14ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے، دہشت گردی کی جنگ میں ملک کے نقصانات 19بلین ڈالر سالانہ ہیں۔ اِس طرح پاکستان کو سالانہ، 55ارب ڈالر کے نقصانات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔

دوسری طرف، محکمہ محصول آمدن سالانہ 18ارب ڈالر وصول کرپاتا ہے ، جب کہ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس بڑھا دیا جائے، پٹرول کی قیمتیں بڑھا دی جائیں جِس کا نتیجہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔

غربت میں کمی اور اشیائے خوردنی کو عام آدمی کی قوتِ خرید میں لانے کےلیے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی متعدد اقدامات تجویز کرتے ہیں۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے منصفانہ ٹیکس نظام ، بد عنوانی پر قابو پانےاور حکومت کی آمدنی کا رُخ چھوٹے سے مخصوص طبقےکی طرف موڑنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنے پر زور دیا۔ اُن کے خیال میں جنرل سیلز ٹیکس 15سے پانچ فی صد ہونی چاہیئے، جب کہ پیٹرول پر جی ایس ٹی ہونا ہی نہیں چاہیئے۔

حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کا مؤقف رہا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ہزاروں لاکھوں خاندانوں میں مالی معاونت کا بنیادی مقصد آمدن اور اخراجات میں پیدا ہونے والے عدم توازن کو کم کرنا ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG