رسائی کے لنکس

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور کے کے آغا کون ہیں؟


اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت
اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم آئینی ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل آج سے اعلیٰ عدلیہ کے دو ججز کے خلاف اپنے حلف کی خلاف ورزی اور مس کنڈکٹ کی شکایات کے تحت صدر پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنسز کی سماعت کر رہا ہے۔

ان دو ججز میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد کریم خان آغا شامل ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن قاضی محمد عیسیٰ کے صاحبزادے ہیں۔

ان کے والد کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ قاضی محمد عیسیٰ صوبہ بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنما اور پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کرنے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے اور یہاں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے قانون کی تعلیم لندن سے حاصل کی اور پھر وطن واپس آ کر وکالت شروع کی۔

وہ بطور وکیل تقریباً 27 سال ملک کی مختلف عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدالتی کیرئیر

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 5 اگست 2009 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ انھیں 5 ستمبر 2014 میں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔

انھوں نے نومبر 2007 میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی اور عبوری آئینی حکم کے تحت ججز کے حلف لینے کی مخالف کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم فیصلے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس عرصے کے دوران کئی اہم مقدمات میں انتہائی اہم فیصلے تحریر کیے۔

سنہ 2012 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میمو گیٹ کمشن کی سربراہی بھی کی۔

میمو گیٹ اسکینڈل میں اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی پر الزام تھا کہ انھوں نے پاکستان میں فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے امریکہ سے سول حکومت کی مدد کی درخواست کی تھی۔

جسٹس فائز عیسٰی نے سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی کمشن رپورٹ میں حسین حقانی کو قصوار ٹھہرایا تھا۔

کوئٹہ خودکش دھماکہ انکوائری کمیشن

اسی طرح 8 اگست 2016 میں کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد اس کے حقائق جاننے کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا جس کی سربراہی بھی جسٹس قاضی فائز عیٰسی کو سونپی گئی۔ انکوائری کمیشن نے اپنی پیش کردہ رپورٹ میں خود کش دھماکے کو حکومت کی غفلت قرار دیا تھا۔

انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو متنبہ کیا کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس

جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے دسمبر 2017 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف نیب کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔

نیب نے حدیبیہ پیپر مل کیس میں لاہور کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کو ایک ارب 20 کروڑ روپے کی کرپشن کے الزام سے بری کر دیا تھا۔

چیف جسٹس سے اختلافات

گزشتہ سال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اختلافات کے باعث اپنی سربراہی میں قائم اس تین رکنی بینچ سے نکال دیا تھا جو آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت ایک کیس کی سماعت کر رہا تھا۔

اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ ان درخواستوں کی سماعت کی مجاز ہے جو عوامی نوعیت کی ہوں اور اس میں بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ بھی درپیش ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے اس اقدام پر اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے بینچ دوبارہ تشکیل دینے کے فیصلے کو عجلت اور عدالتی نظام کے لیے برا شگون قرار دیا تھا۔

فیض آباد دھرنا کیس

وکلا رہنماؤں کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ریفرنس کی بنیاد ان کا فیض آباد دھرنا کیس میں تحریر کیا گیا فیصلہ ہے جو فوج سمیت بہت سی مقتدر قوتوں کو ناگوار گزرا تھا۔

فروری 2017 میں وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے داخلی علاقے فیض آباد میں مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے سے عوام کو درپیش مشکلات پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا جس کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال کیس کی سماعت کے بعد جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ تحریر کیا تھا۔

اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکومت وقت کے علاوہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے دھرنے میں خلاف قانون کردار پر سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ فیصلے میں حکم دیا گیا تھا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا پرچار کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

فیصلے میں چیف آف آرمی اسٹاف کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحت اہل کاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ فوج کسی ایک جماعت، سیاست دان یا تنظیم کو سپورٹ کر رہی ہے۔

اس فیصلے کے خلاف وزارت دفاع کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا چکی ہے اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فیصلے میں سے فوج اور خفیہ ایجنسی سے متعلق سطور خارج کی جائیں۔

جسٹس کے کے آغا کون ہیں؟

سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف بھی ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔

جسٹس محمد کریم خان آغا 20 ستمبر 1964 کو پیدا ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد قانون کا پیشہ اختیار کیا۔

جسٹس کریم خان آغا اقوام متحدہ میں قانونی خدمات سرانجام دینے کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل کے طور پر پیش ہوتے رہے ہیں۔ انہیں 2010 میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل تعینات کیا گیا تھا جس کے بعد وہ قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔ لگ بھگ 25 سال تک قانون کے شعبے سے منسلک رہنے کے بعد انہیں 30 اکتوبر 2015 کو سندھ ہائی کورٹ کا مستقل جج تعینات کیا گیا۔ اس وقت وہ سندھ ہائی کورٹ میں سنیارٹی کے حساب سے 21 ویں نمبر پر ہیں اور 19 ستمبر 2026 کو اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG