رسائی کے لنکس

افغان خواتین کے حقوق کے لیے بین الاقوامی سطح پر احتجاج، واشنگٹن ڈی سی میں بھی مظاہرہ


 افغانستان میں خواتین حقوق کے لیے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں احتجاج کیا گیا۔
افغانستان میں خواتین حقوق کے لیے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں احتجاج کیا گیا۔

افغان طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت پر پابندیوں کے بعد بین الاقوامی سطح پر اس کی مذمت کی جا رہی ہے اور مظاہرے بھی ہو رہے ہیں ۔اس سلسلے میں امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہفتے کو ’گلوبل موومنٹ فار وومن رائٹس ان افغانستان‘ کے عنوان سے ایک مظاہرہ کیا گیا ۔

واشنگٹن میں ہونے والا مظاہرہ ہفتے کو دنیا بھر کے 40 سے زیادہ شہروں میں ہونے والے احتجاج میں سے ایک تھا ۔مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ طالبان خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم ، روزگار اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم نہ کیا جائے ۔

واشنگٹن ڈی سی کے مظاہرے کے منتظمین میں سے ایک افغان امریکی ناہید پوپل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم یہاں افغانستان کی ان خواتین کے لیے جمع ہوئے ہیں جن کی آواز اس وقت کوئی سننے والا نہیں ۔

مظاہرے کی منتظم، ناہید پوپل
مظاہرے کی منتظم، ناہید پوپل

واشنگٹن ڈی سی کی رہائشی ناہید پوپل کہتی ہیں کہ دو سال قبل طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے انہوں نے بہت سے وعدے کیے تھے کہ اب کی بار حالات مختلف ہوں گے لیکن اس بار ہم طالبان کو پہلے سے بدتر دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں ان پر بھروسہ نہیں ہے۔ ہم ان کی حکومت کو نہیں مانتے۔

مظاہرے میں شریک ورجینیا سے تعلق رکھنے والی افغان امریکی مریم مصطفیٰ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک امریکی شہری ہوتے ہوئے مجھے افغانستان میں خواتین کے لیے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر شدید افسوس ہوتا ہے۔

’’ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ طالبان افغانستان میں خواتین کے ساتھ یکساں سلوک کرے اور ان کا احترام کریں جیسا کہ باقی ممالک میں ہو رہا ہے۔مجھے لگتا ہے ہم نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ میں آج یہاں اس لیے آئی ہوں کہ اس بارے میں آگاہی دے سکوں ۔‘‘

واضح رہے کہ افغانستان میں برسرِاقتدار طالبان نے خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی میں نرمی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس 'عارضی اقدام' کے حل کے لیے کام جاری ہے۔

یہ بیان گزشتہ ہفتے اس مطالبے کے جواب میں سامنے آیا تھا جس میں مسلم اکثریتی ممالک کی جانب سے طالبان سے کہا گیا تھا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین امدادی ورکرز پر پابندیوں کو واپس لیں۔

واشنگٹن ڈی سی
واشنگٹن ڈی سی

نصرت خالد واشنگٹن ڈی سی میں رہنے والے ایک افغان کاروباری شخص ہیں۔وہ ’اسیل‘ کے نام سے ایک موبائل ایپ چلاتے ہیں، جس کے تحت افغانستان میں عام لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا فراہم کی جاتی ہیں ۔

وہ واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے اس مظاہرے میں بطور اسپیکر شریک تھے ۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نصرت خالد نے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جو اپنی بیٹیوں اور خاص طور پر لڑکیوں پر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگاتا ہو یا خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کو سیاسی سودے بازی کے طور پر استعمال کرتا ہو۔

انہوں نے افغانستان میں خواتین کے صورتِ حال کے حوالے سے کہا کہ یہ قابلِ قبول نہیں ہے۔اگر آپ کو اس کا کوئی حل تلاش کرنا ہے تو ہمیں بہت جلد یہ کرنا پڑے گا۔ آپ افغانستان میں لڑکیوں کی جان قربان نہیں کر سکتے اور اتنا وقت نہیں لے سکتے۔

اس مظاہرے میں افغان امریکیوں سمیت افغانستان سے امریکہ آنے والے نئے افغان پناہ گزینوں نے بھی حصہ لیا ۔

ان میں افغان سرگرم کارکن ، صحافی، فنکار بھی شامل تھے۔

اندیشہ امیری افغانستان میں خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرتی رہی ہیں ۔وہ 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد امریکہ آگئی تھیں ۔

افغان خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن، اندیشہ امیری
افغان خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن، اندیشہ امیری

اندیشہ امیری کا کہنا ہے کہ یہ صورتِ حال نازک ہے۔ امید ہے عالمی برادری طالبان پر دباؤ بڑھائے گی اور صورتِ حال پہلے کی طرح ہو جائے گی۔

مظاہرے کے خصوصی شرکا میں سے ایک فرہاد دریا تھے ،جو معروف گلوکار اور موسیقار ہیں ۔وہ طالبان کے آنے کے بعد افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہونے والے فنکاروں میں سے ایک ہیں اور اس وقت امریکہ کی ریاست ورجینیا میں مقیم ہیں ۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فرہاد دریا نے کہا کہ کچھ بھی نہیں بدلے گا اور اس وقت تک کچھ نہیں ہوگا جب تک کہ ہم بات شروع نہیں کریں گے اور آواز بن کر باقی دنیا کے ساتھ اپنا درد نہیں بانٹیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ درد اور تکلیف رہے گی اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ لہذا بہتر ہے کہ ہم ایک مضبوط آواز بن کر ابھریں ۔ اگلا مرحلے میں افغانستان کے حالات کو بدلنا ہوگا۔

فرہاد دریا، افغان گلوکار و موسیقار
فرہاد دریا، افغان گلوکار و موسیقار

طالبان نے اگست 2021 میں کابل پر قبضے کے بعد مرحلہ وار لڑکیوں اور خواتین کو اسکولوں ، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم سے روک دیاتھا۔

حال ہی میں ملکی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے والی خواتین اسٹاف کو بھی کام سے منع کر دیا گیا ہے۔

طالبان نے کہا ہے کہ یہ اقدامات خواتین کے اسکارف نہ پہننے یا دیگر قوانین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اٹھائے گئے ہیں ۔

طالبان کے اس بیانیے پر مظاہرے کی منتظمین میں شامل ناہید پوپل کہتی ہیں کہ یہ ایک سیاسی چال ہے۔ اس میں بہتری نظر نہیں آتی۔

مظاہرے میں کچھ مقامی افراد نے بھی افغان خواتین کے حق میں آواز بلند کی ۔

واشنگٹن ڈی سی کے احتجاجی مظاھرے کی ایک اور جھلک
واشنگٹن ڈی سی کے احتجاجی مظاھرے کی ایک اور جھلک

طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں پر لگائی جانے والی پابندیوں کی مذمت میں سوشل میڈیا پر ’لیٹ افغان گرلز لرن ‘ کے عنوان سے ایک ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کر رہا ہے ۔

XS
SM
MD
LG