رسائی کے لنکس

’پی ٹی ایم کے جلسے کے میڈیا بائیکاٹ کا فائدہ نہیں ہو گا‘


سینئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ کسی تنظیم یا گروپ کے موقف کو میڈیا پر نشر کرنے سے روکنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے اتوار کو لاہور میں ہونے والے جلسے میں صرف پشتونوں ہی نے نہیں بلکہ پنجاب اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی شرکت کی۔

جلسہ ہوا اور پرامن طور پر ختم بھی ہو گیا، لیکن ملک کے مرکزی یعنی ’مین اسٹریم‘ میڈیا پر اسے کور نہیں کیا گیا۔

لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹوئٹر‘ پر #PastunLongMarch2Lahore اور #ManzoorPashteen کے عنوان سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتے رہے اور بڑی تعداد میں لوگوں نے اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا۔

صحافی صباحت ذکریا نے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے منظم انداز میں جلسے کے انعقاد اور برمحل تقاریر خاص طور پر اس تحریک کے رہنما منظور پشتین کے خطاب کو سراہا۔

اُن کا کہنا تھا کہ رہنماؤں کو ’پی ٹی ایم‘ سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیسے چلائے بغیر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ کسی تنظیم یا گروپ کے موقف کو میڈیا پر نشر کرنے سے روکنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔

"میرے خیال میں مکمل بلیک آؤٹ نہیں ہوا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں تو آیا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ جو ٹی وی چینلز ہیں، انھوں نے اس کو نہیں دکھایا ہے۔۔۔۔ اس سے پہلے بھی کئی چیزیں اس قسم کی روکی جا چکی ہیں۔ اس پر نقصان ضرور ہوگا، فائدہ کچھ نہیں ہے۔ کیوں کہ اختلاف ضرور ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو، جو وہاں پر تقاریر ہوئی تھیں۔ لیکن اس کو بلیک آؤٹ کرنے کا نتیجہ بہت اچھا نہیں ہوتا۔ لوگوں کو اظہارِ رائے کی آزادی دینے سے ریاست پر اعتماد بڑھتا ہے، کم نہیں ہوتا۔ لیکن اس قسم کے اقدامات سے ریاست پر اعتماد کم ضرور ہوتا ہے۔‘‘

زاہد حسین کہتے ہیں کہ اس طرح کے اقدام سے سوالیہ نشانات کھڑے ہوتے ہیں۔

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ کسی کی رائے کو نظر انداز کرنا صحت مند فعل نہیں ہے۔

"جمہوریت میں جتنی زیادہ رائے ہوں اتنا اچھا ہوتا ہے۔۔۔۔ ہر قسم کی عوامی رائے لوگوں کے سامنے ہونی چاہیے۔ تاکہ وہ سب کچھ دیکھ کے، سوچ کے، سن کے اپنی رائے قائم کر سکیں۔ اس سے معاشرہ صحت مند رہتا ہے۔"

’ایچ آر سی پی‘ کے چیئرمین کہتے ہیں کہ حکومت کو پشتون تحفظ موومنٹ سے مذاکرات کر کے اُن کی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے۔

"جو بھی پاکستان میں رہتا ہے اور پاکستان کے خلاف اس کا مؤقف نہیں ہے، ان کے مسائل حل ہونے چاہئیں۔ اور اگر (موقف) خلاف بھی ہے تو اُن سے گفتگو ہونی چاہیے۔ مکالمہ ہونا چاہیے۔ اس کو صحیح لائن پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمران جماعت کو ان سے مکالمہ کرنا چاہیے۔ ان کی شکایات پر غور کرنا چاہیے۔"

پشتون تحفظ موومنٹ جبری گمشدگیوں کے خاتمے اور ماورائے عدالت قتل جیسے مسائل کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ اس تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اُن کے مطالبات آئین اور جدوجہد پر امن ہے اور وہ اب اپنا آئندہ جلسہ کراچی میں کریں گے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ریاست کے اداروں کو اپنے اقدامات سے یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ کسی خاص تحریک کی رائے کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں، بلکہ مسائل پر کھل کر بحث کا موقع فراہم کرنا چاہیے تاکہ اُن کا حل تلاش کرنے میں مدد ملے سکے۔

XS
SM
MD
LG