رسائی کے لنکس

فٹ بال ورلڈ کپ: پاکستان مطلوبہ افرادی قوت قطر بھیجنے میں ناکام کیوں رہا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے علاقے دیر سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ ہاشم خان کو قطر میں ایک شاپنگ سینٹر میں بطور گارڈ نوکری ملی، جس کے بعد اسے ویزا نمبر رواں سال ستمبر میں جاری کیا گیا۔ انہوں نے ویزا فیس 500 ریال اور دیگر اخراجات بھی جمع کرا دیے۔

اب ہاشم کو قطر روانہ ہونے سے قبل ویزا حاصل کرنے کے لیے ایک میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا تھا، جو اسلام آباد اور کراچی میں واقع قطر ویزا سینٹرز ہی میں ممکن ہوپاتا۔

اس میڈیکل ٹیسٹ کے لیے اپائنٹمنٹ بک کرانے کے باوجود بھی کئی ہفتے گزر گئے لیکن ہاشم خان کو میڈیکل ٹیسٹ کے لیے طلب نہیں کیا گیا۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے ارجنٹ میڈیکل ٹیسٹ کے مزید ساڑھے سات ہزار روپے فیس جمع کرائی۔ پھر بھی اپائنٹمنٹ نہ ملی تو ہاشم نے پہلے اسلام آباد اور پھر کراچی کا رُخ کیا لیکن اب تک ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔

ہاشم خان جیسے ہزاروں پاکستانی اس سال قطر جانے کے خواہش مند ہیں تاکہ وہ قطر میں جاری فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران پیدا ہونے والی لاکھوں نئی ملازمتوں سمیت دیگر نوکریوں سے فائدہ اٹھاسکیں۔ دوسری جانب ان جیسے ورکرز کے بیرونِ ملک جاکر ملازمتیں کرنے سے جہاں پاکستان میں بے روزگاری میں کسی حد تک کمی ہوسکتی ہے، وہیں کثیر زرِ مبادلہ مل سکتا ہے جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔

قطر کی جانب سے ورلڈ کپ کے لیے مختلف ملازمتوں کے لیے تین ماہ اور دیگر ملازمتوں کے لیے بھی لمبی مدت کے لیے ویزے جاری کیے جا رہے ہیں۔ خود قطر کی حکومت نے فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران پیدا ہونے والی نئی ملازمتوں کا تخمینہ کوئی 15 لاکھ لگایا تھا۔

دوسری جانب اس سال پاکستان کو پہلے ایک لاکھ ملازمتوں کا کوٹا جاری کیا گیا تھا جب کہ اگست میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورے کے موقع پر اس کوٹے میں مزید ایک لاکھ ملازمتوں کا اضافہ کیا گیا۔

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اکتوبر تک قطر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 46 ہزار 550 رہی، جن میں سے ورلڈ کپ میں مختلف خدمات انجام دینے والے سات ہزار سے زائد پاکستانی بھی شامل ہیں یعنی قطر کی جانب سے جاری کردہ کوٹے کے نصف بھی بیرونِ ملک اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس نادر موقعے سے فائدہ اٹھانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی ذمہ داری اس نجی کمپنی پر عائد ہوتی ہے جو قطر ویزا سینٹر میں میڈیکل ٹیسٹ اور دیگر امور کی ذمہ دار ہے۔

ان کے مطابق قطر کی حکومت کی وزارتِ داخلہ نے ویزا پراسس کی ذمہ داری ایک معاہدے کے تحت بائیومیٹ سروسز اور جیریز ویزا کو دے رکھی ہے۔ اسلام آباد اور کراچی میں قائم قطر ویزا سینٹرز میں روزانہ میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے لیے صرف 250 سے 300 ٹیسٹ کرانے کی سہولت میسر ہے جب کہ ضرورت اس کے دو گنا سے بھی زیادہ کی ہے، جس کی وجہ سے افرادی قوت کو بیرون ملک بھیجنے میں کئی کئی ماہ کی تاخیر ہورہی ہے اور اس دوران ظاہر ہے کہ ورلڈ کپ فٹ بال ختم ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی ایسوسی ایشن نے اس متعلق کئی بار حکومت کو خطوط لکھے تاکہ وہ اس حوالے سے قطری حکومت سے بات کر کے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے اس پر کوئی قدم نہ اٹھایا اور غفلت و لاپرواہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان فٹ بال ورلڈ کپ میں مطلوبہ افرادی قوت بھیجنے میں ناکام رہا جب کہ اس حوالے سے اپنے کوٹے کو ضائع کردیا۔

عدنان پراچہ کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان ان افراد کو باہر بھیجنے میں کامیاب ہو جاتا تو قطر کی حکومت سے مزید کوٹا بڑھانے کی بھی درخواست کی جاسکتی تھی اور یوں ملک بھیجی جانے والی رقوم میں ایک سے دو ارب ڈالرز کے غیر ملکی زرِ مبادلہ میں سالانہ کا اضافہ باآسانی کیا جا سکتا تھا، جس کی اس وقت ملک کو اشد ضرورت ہے۔

عدنان پراچہ نے مزید بتایا کہ دوسری جانب پاکستان سے ورکرز کم جانے پر قطر نے ورلڈ کپ فٹ بال کے لیے بھارت اور بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں ورکرز طلب کیے اور نیپال جیسا ملک، جس کی کل آبادی تین کروڑ 60 لاکھ کے لگ بھگ ہے، وہ بھی اس سال اب تک ایک لاکھ 70 ہزار افرادی قوت اس موقع پر قطر بھیجنےکے قابل ہوسکا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مالی سال 2022 میں مجموعی طور پر سمندر پار سے 31 ارب 27 کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے گئے جب کہ سال 2021 میں بھی 29 ارب 44 کروڑ ڈالر ترسیلات زر بھیجے گئے۔ لیکن رواں مالی سال 2023 کے پہلے چار ماہ یعنی جولائی سے اکتوبر میں اب تک 10 ارب 18 کروڑ ڈالر پاکستان منتقل کئے گئے اور ہر ماہ اس رقم میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے جس کی وجہ سے اکتوبر میں ترسیلاتِ زر کم ہوکر 2 ارب 21 کروڑ ڈالر رہ گئی ہیں جو رواں سال اپریل میں 3 ارب 12 کروڑ ڈالر تھے۔

دوسری جانب پارلیمانی سیکریٹری برائے وزارتِ سمندر پار پاکستانی سید آغا رفیع اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کیا کہ حکومت نے اس بارے میں قطر کی حکومت سے کوئی بات چیت نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی اور اسلام آباد سے چوں کہ بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والے خواہش مند کم ہوتے ہیں اور یہاں قائم ویزا سینٹرز میں ویزا پراسس مکمل کرنے کی روزانہ کی گنجائش صرف 250 سے 300 افراد کی ہے، اس لیے قطر کی حکومت سے درخواست کی گئی کہ وہ لاہور اور پشاور میں مزید ایک ایک ویزا سینٹر کھولے تاکہ اس پراسس کو زیادہ تیزی سے مکمل کیا جاسکے۔ تاہم اب تک اس درخواست پر قطر حکومت نے عمل درآمد کرنا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی خواہش ہے کہ اس عمل کو مزید تیز کیا جا سکے تاکہ اس سے ملازمتوں کے مواقع ملنے کے ساتھ یہ ورکرز ملک کی خوش حالی میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔

 فٹ بال ورلڈ کپ: قطر کس طرح اس ایونٹ سے فائدہ اُٹھا رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:32 0:00


حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ قطر میں کام کرنے والے ورکرز میں پاکستانیوں کی تعداد ساتویں نمبر پر ہے۔ بھارت، نیپال، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کی افرادی قوت پاکستانیوں سے زیادہ تعداد میں وہاں کام کر رہی ہے جب کہ پاکستان کی افرادی قوت کے لیے قطر پانچویں بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔ جہاں تین برس میں 97 ہزار 361 پاکستانی رجسٹرڈ ورکرز کام کررہے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت جاری فیفا ورلڈ کپ کے علاوہ قطر میں صحت سے متعلق جاری نئے منصوبے، قطر ڈیجیٹل انیشی ایٹوز، قطر وژن 2030 اور پھر جون 2023 میں اے ایف سی (ایشین فٹبال کنفیڈریشن کلب) کپ وغیرہ جیسے ایونٹس وہاں لاکھوں کی تعداد میں نئی ملازمتیں پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان نے قطر میں جاری ورلڈ کپ فٹبال کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے اپنا چار ہزار سے زائد فوجیوں پر مشتمل سب سے بڑا فوجی دستہ بھیج رکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG