رسائی کے لنکس

گوانتانامو بے سے رہائی پانے والے پاکستانی احمد ربانی اپنے فن پاروں کی نمائش کے لیے تیار


احمد ربانی اپنے صاحبزادے جواد کے ہمراہ
احمد ربانی اپنے صاحبزادے جواد کے ہمراہ

امریکی قید خانے گوانتانامو بے سے 20 برس بعد حال ہی میں رہائی پانے والے پاکستانی شہری محمد احمد غلام ربانی رواں برس مئی میں اپنے فن پاروں کی نمائش کریں گے ۔

محمد احمد ربانی نےاسیری کے ایام کے دوران آرٹ کے درجنوں نمونےتخلیق کیے تھے جنہیں اب کراچی میں مئی کے پہلے ہفتے میں نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔

احمد ربانی کے فن پاروں کی نمائش کے موقع پر دیگر 12 پاکستانی فن کاروں کے آرٹ ورک کی بھی رونمائی ہو گی۔

ترپن سالہ محمد احمد ربانی اور ان کے پچپن سالہ بھائی عبدل رحیم غلام ربانی کوفروری کے آخر میں گوانتانامو بے سے رہا کر کے پاکستان منتقل کیا گیا تھا۔

امریکی حکام نے دونوں بھائیوں کو نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے لیے کام کرنے اور پاکستان میں القاعدہ کے مشتبہ دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔ تاہم دونوں بھائیوں پر اب تک کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی ۔

امریکی محکمۂ دفاع نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ گوانتاناموبے ، کیوبا سے رہائی پانے والے قیدی اب اپناآرٹ ورک اپنے ساتھ لے کر جا سکتے ہیں ۔

قیدیوں کے فن پاروں کی ریلیز پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پابندی لگا دی گئی تھی لیکن پینٹاگان نے کہا ہے کہ یہ آرٹ ورک اب بھی 'امریکی حکومت کی ملکیت' ہیں۔

قیدیوں کے فن پاروں پر پابندی ہٹائے جانے کے بعد جن قیدیوں کو اپنا آرٹ ورک ساتھ لے جانے کی اجازت دی گئی ، ان میں پاکستانی محمد احمد غلام ربانی بھی شامل ہیں ۔

کلیو اسٹیفورڈ اسمتھ برطانیہ میں مقیم انسانی حقوق کے امریکی وکیل ہیں ،وہ پندرہ سال تک گوانتانامو سے رہائی پانے والے پاکستانی سیف اللہ پراچہ اور ربانی بھائیوں کے وکیل رہے ہیں۔ انہوں نے ان تینوں افراد کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔

کلیو اسمتھ کہتے ہیں کہ ایک حیرت انگیز چیز جو ہم گوانتانامو سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے وہ احمد ربانی کا بنایا ہوا آرٹ ورک ہے ۔

ان کے بقول، "وقت کے ساتھ ساتھ احمد کی شاندار فن کارانہ صلاحیتیں بہتر سے بہتر ہوتی گئی ہیں ۔ ان فن پاروں کے بارے میں ایک بڑی بحث یہ تھی کہ آیا جب قیدی یہاں سے رہا ہو جائیں گے تو کیا وہ اپنا آرٹ ورک اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں ؟تو مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اقوام متحدہ کی مداخلت کی بدولت احمد ربانی کو گوانتاناموبے میں موجود اپنے تمام فن پاروں کو لے جانے کی اجازت دی گئی۔"

کلیو اسمتھ ربانی بھائیوں کی رہائی کے بعد فروری میں پاکستان گئے تھے، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کراچی میں ان کے گھر میں اس آرٹ ورک کی بڑی تعداد دیکھی ہے۔

کلیو اسمتھ کا کہنا ہے کہ وہ اس نمائش میں حصہ لینے کے لیے پاکستان جائیں گے اور امید کرتے ہیں کہ یہ نمائش احمد ربانی کےلیے مستقبل میں بطور فن کاراہم کردار ادا کرے گی۔

گوانتانامو بے کیوبا میں سالوں سے بند قیدیوں نے شروع شروع میں جب آرٹ بنانے کی کوشش کی تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔دو ہزار دس میں کچھ تبدیلیاں آئیں ، قیدی اپنے طویل عرصے سے پوشیدہ جذبات اور ہنر کو سامنے لانے لگے اور انہیں کاغذ، قلم اور پینٹ مہیا کیے گئے۔

یہ آرٹ ورک بہت سے قیدیوں کے لیے ان کی ذہنی صحت کو بحال رکھنے کا ایک طریقہ تھا۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ قیدی اس میں دلچسپی لینے لگے ۔بعدازاں 2017 میں امریکی ریاست نیویارک کے جان جے کالج آف کریمنل جسٹس میں "اوڈ ٹو دا سی" کے نام سے گونتانامو بےکے قیدیوں کے فن پاروں کی نمائش کی گئی جس میں پینٹنگز، مجسموں اور ماڈلز کے ذریعے قید خانے ، وہاں کی زندگی ، پھولوں، بحری جہاز اوردیگر کئی چیزوں کی عکاسی کی گئی تھی۔

چھتیس فن پاروں کی اس بڑی نمائش کو امریکہ کے اندر خاصی میڈیا کوریج ملی۔ قیدیوں کے فن پارے خریدنے میں دلچسپی رکھنے والوں نے ان کے وکلاء سے رابطے بھی کیے۔

قیدیوں کے آرٹ ورک میں لوگوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے گوانتانامو بے سے بعض قیدیوں کو اپنا آرٹ ورک اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت بھی دی گئی لیکن 2017 میں اس وقت کی ٹرمپ انتظامیہ نے اس آرٹ ورک کی نمائش ، اس کی ریلیز یا فروخت پر پابندی لگا دی ۔

اس وقت امریکی محکمۂ دفاع نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ یہ فن پارے قیدیوں کے بجائے سرکاری ملکیت ہیں اور کہا کہ حکام اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ یہ کسی تیسرے فریق کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔

قیدیوں کے وکلاء کا کہنا ہے کہ گوانتانامو بےکے قیدیوں کا آرٹ ورک سرکاری ملکیت ہونے کا دعویٰ قانون کے مطابق نہیں اور مکمل آرٹ ورک پر پابندی قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

نیویارک کے جان جے کالج آف کریمنل جسٹس سے وابستہ ایرن تھامپس نے 2017 میں خبر رساں ادارے 'رائٹر ز' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ آرٹ دہشت گردی کو مثبت انداز میں پیش کرتا ہے ، جو مقصود نہیں تھا۔

" میرے لیے یہ فن ان لوگوں کے ذہنوں کے بارے میں انمول معلومات فراہم کرتا ہے ، چاہے آپ انہیں مجرم سمجھتے ہوں یا بے قصور۔ قیدی سمندر سے محض چند گز کے فاصلے پر ہیں لیکن وہ اسے دیکھ نہیں سکتے، وہ اسے سونگھ سکتے ہیں۔"

گوانتانامو بے کے قیدیوں کے بنائے فن پاروں پر پابندی ختم
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:22 0:00

گوانتانامو کے قیدیوں کے بنائے گئے فن پاروں پر پابندی کا موضوع گزشتہ برس پھر خبروں کی زینت بنا تھا جب قیدیوں نے ایک خط کے ذریعے امریکی صدرجو بائیڈن سے آرٹ ورک پر عائد پابندی کو ختم کرنے اپیل کی۔

خط میں بتایا گیا کہ 2010 سے جیل میں آرٹ کی کلاسز اور آرٹ کے مواد تک رسائی نے انہیں اپنی یادوں، اپنے خاندانوں اور دنیا سے جڑنے کا موقع فراہم کیا ہے جب کہ کچھ قیدیوں نے اپنے فن پاروں کے بغیر قید خانے سے جانے سےبھی انکار کر دیا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ 2010 سے پہلے، قیدیوں کو آرٹ ورک کی اجازت نہیں تھی لیکن وہ چھپ کر چائے کی پتی کے ذریعے، ٹوائلٹ پیپر پر، کھانے کے کنٹینرزپر اور دیواروں پر صابن کے ذریعے آرٹ بناتے تھے۔

گزشتہ سال نومبر میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے امریکی وزیرِ خارجہ کو ایک خط میں گوانتاناموبے کے قیدیوں کےآرٹ ورک کی ملکیت اور عوام تک ان کی رسائی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا ۔

گوانتاناموبے قید خانے کے اندر کی زندگی کیسی ہے؟ اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہےکیوں کہ اب تک ہر چیز انتہائی خفیہ رکھی گئی ہے۔

قیدیوں کے آرٹ ورک پر عائد پابندی کو ہٹائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم گوانتانامو بے کے بارے میں بہتر طور پر جان سکیں گے ۔

XS
SM
MD
LG