رسائی کے لنکس

مون سوں کی پہلی ہی بارش نے حکومتی دعووٴں کی قلعی کھول کر رکھ دی: ترجمان آکسفیم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

’اِس سے قبل حکومتی اداروں نے اطلاع دی تھی کہ 90فی صد تک حفاظتی اقدامات پورے ہیں، لیکن آکسفیم کو اُس وقت سخت مایوسی ہوئی جب بدین، میرپورخاص کے علاوہ حیدرآباد کے چند علاقوں میں پلوں کو گرتے اور حفاظتی بندوں میں شگاف پڑتے دیکھا گیا‘

بین الاقوامی امدادی ادارے ’آکسفیم‘ کے پاکستان میں ترجمان، مبشر اکرم نے بتاہا ہے کہ دو دِن قبل تک کی سرکاری اطلاعات کے مطابق جنوبی سندھ میں شدید بارشوں اور سیلابی صورتِ حال کےباعث دو لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

سندھ میں آنے والے حالیہ سیلاب کے بارے میں منگل کو’ وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ جب کہ اِس سے قبل حکومتی اداروں نے اطلاع دی تھی کہ 90فی صد تک حفاظتی اقدامات پورے ہیں، لیکن آکسفیم کو اُس وقت سخت مایوسی ہوئی جب بدین، میرپورخاص کے علاوہ حیدرآباد کے چند علاقوں میں پلوں کو گرتے اور حفاظتی بندوں میں شگاف پڑتے دیکھا گیا۔

مبشر اکرم کے بقول، ایک تو مون سون کا موسم غیر متوقع نہیں تھا، جب کہ پہلی ہی بارش نے حکومتی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔

دوسری طرف، اُن کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اِس سال اب تک مون سون کے دوران عمر کوٹ اور مِٹھی کے علاقوں میں بھی شدید بارشیں ہوچکی ہیں، جہاں پچھلے برسوں میں عمومی طور پر کم ہی بارش ہوتی ہے۔ لیکن، اُن کے الفاظ میں: ’ پھر حفاظتی بند بھی ٹوٹے، جو بات حکومتی اقدامات اور تیاری کی نفی کرتا ہے‘۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر قائم ادارے کے ترجمان، احمد کمال کا کہنا تھا کہ قدرت کے اوپر کسی کو کوئی کنٹرول نہیں ہے۔

اُنھوں نےبتایا کہ چھ اگست کی پیش گوئی میں تیز طوفانی بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی لیکن اِس قدر سنگینی کا ادراک اور انتباہ نہیں تھا۔

احمد کمال کے مطابق، متعلقہ اداروں کی طرف سے تیاریاں کی گئی تھیں جو ناکافی ثابت ہوئیں، لیکن اِسے، اُن کے بقول، ناکامی کا نام دینا ٹھیک نہیں۔

’فلیش فلڈز‘ کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے بتایا کہ باقی صوبوں کی بنسبت سندھ میں حفاظتی بندوں کی مضبوطی کا معاملہ قدرے ناکافی اور کمتر تھا، ساتھ ہی، بدین میں لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین ( ایل بی او ڈی ) کے سیم نالے میں شگاف پڑنے سے وسیع علاقہ زیرِ آب آیا۔ اِس ضمن میں، ترجمان نے بتایا کہ ’فیلش فلڈز‘ کی صورت میں تیاری کا معاملہ حل طلب رہا ہے جسے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کسی قدرتی آفت کی صورت حال سے بہتر طور پر نمرد آزما ہونے کے لیے پیشگی انتظامات کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ سندھ کی 45لاکھ کی آبادی کے لیے جو اقدمات لیے جانے تھے وہ تلسی بخش طور پر نہیں کیے گئے۔

یہ معلوم کرنے پر کہ ابھی مون سون کا موسم ختم نہیں ہوا، اگر مزید بارشیں ہوئیں تو اِس سے نبردآزما ہونے کے لیے کیا قدم اٹھائے گئے ہیں، احمد کمال نے کہا کہ بارشوں کے باعث سیلابی صورتِ حال سے نمٹنے کا ’مضبوط نظام موجود نہیں، جو کہ توجہ طلب معاملہ ہے‘۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG