قانون نافذ کرنے والے حکام نے امریکہ کی شمال مغربی ریاست اوریگن میں جنگلی حیات کی پناہ گاہ، ’ملہور نیشنل وائلڈ لائف ریفوج‘ پر قبضہ کرنے والے مظاہرین کے ساتھ پرتشدد تصادم کے بعد، بدھ کو اس محاصرہ کر لیا ہے۔
امریکی حکام کے ساتھ تصادم کے دوران مظاہرے میں شریک ایک شخص ہلاک ہوگیا، جبکہ 8 مظاہرین گرفتار کرلئے گئے ہیں۔ ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وفاقی زمین کی ملکیت مقامی حکام کے حوالے کی جائے۔
کارروائی کے دوران، مظاہرین کی قیادت کرنے والے ایمون بنڈی اور اس کے کئی ساتھی ریفوج ہیڈکوارٹر سے دور کمیونٹی کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے گئے ہوئے تھے۔ تاہم، گرفتار افراد میں بونڈی بھی شامل ہے۔ لیکن، قبضہ کرنے والے دیگر قائدین کا کہنا ہے کہ پانچ یا چھ دیگر مظاہرین اب بھی ریفوج میں موجود ہیں۔ بعد میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے تصادم میں ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت جنوب مغربی ریاست ایریزونا کے ایک زرعی ملازم، ربرٹ فینکم کے نام سے ہوئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد کو سرکاری فرائض کی انجام دہی میں قوت، خوف اور دھمکی کے ذریعے رکاوٹ ڈالنے کی سازش کے الزام میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جنوری کے اوائل میں تعطل کے آغاز سے اب تک بیشتر اوقات میں قانون نافذ کرنے والے حکام نے ماضی کے مظاہروں کا احساس کرتے ہوئے ریفوج کے قریب زیادہ مستعدی کا مظاہرہ نہیں کیا، کیونکہ ماضی کے ایسے مظاہروں میں سے چند کا اختتام بڑے پیمانے پر تشدد پر ہوا تھا۔
مظاہرین نے اصل میں دو مقامی زرعی مزدوروں کو جنگل کو نذر آتش کرنے کے جرم میں جیل بھیجنے پر احتجاج کرتے ہوئے ملہور ریفوج پر قبضہ کرلیا تھا۔
ریفوج کے قریب رہائش پذیر چند میکنوں نے قانون نافذ کرنے والوں کو احتجاج ختم کرانے کے لئے طلب کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی مضافاتی زمینوں پر وفاق کے کنڑول کے مخالف ہیں۔ لیکن، انھیں ریفوج پر قبضہ کرنے والوں پر بھی اعتراض ہے کیونکہ ان میں سے چند تو بہت دور سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔
بنڈی اور اس کا بھائی ریان جو کہ گرفتار ہے حکومت مخالف نوادا کے زرعی مزدور کیلون بنڈی کے بیٹے ہیں۔ بڑے بنڈی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مویشی چرانے کے مسئلے پر 2014 کے حکومت مخالف احتجاج میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
جنگلی حیات کی پناہ گاہ پر احتجاج کا آغاز 2 جنوری کو ہوا تھا، جب ایمون بنڈی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ انھیں مضافاتی زمینوں پر وفاقی کنڑول پر اعتراض ہے اور چاہتے ہیں کہ اس کی ملکیت مقامی حکام کے حوالے کی جائے۔