رسائی کے لنکس

پشاور حملہ: کیا دہشت گردوں کے 'سلیپنگ سیلز'متحرک ہو رہے ہیں؟


پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حملے کے بعد جہاں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے مطالبے کیے جا رہے ہیں تو وہیں بعض ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے سلیپنگ سیلز متحرک ہو رہے ہیں۔

پشاور میں یہ دھماکہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب حال ہی میں کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ خیبرپختونخوا کی سیاسی شخصیات سمیت ملک میں حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں کو بھی دھمکیاں دی گئی تھیں۔

منگل کو قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے دھماکے کی ذمے داری قبول کی ہے۔

خیبرپختونخوا کے علاوہ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انسدادِ دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آٖف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی کی صورتِ حال زیادہ خراب ہے۔

اُن کے بقول 2021 کے مقابلے میں 2022 کے دوران خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 42 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

مذکورہ افسر کا کہنا تھا کہ حالیہ دہشت گردی کے پیچھے ٹی ٹی پی کا ہی ہاتھ رہا ہے جو خیبرپختونخوا میں زیادہ منظم ہو رہی ہے جب کہ بلوچستان میں بھی اس کی کچھ کارروائیاں سامنے آئی ہیں۔

پاکستانی حکام کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف وقتاً فوقتاً کارروائیاں جاری رہتی ہیں، لیکن اس کے باوجود دہشت گردوں یا اُن کے سہولت کاروں کو کہیں نہ کہیں سے کوئی کمک مل جاتی ہے جس سے فائدہ اُٹھا کر یہ دہشت گردی کرتے ہیں۔


سی ٹی ڈی صوبہ پنجاب میں اچانک متحرک کیوں ہو گئی ہے؟

دوسری جانب محکمہ برائے انسدادِ دہشت گردی پنجاب (سی ٹی ڈی پنجاب) نے صوبہ بھر میں اور خاص طور پر دہشت گروں اور انتہا پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

ترجمان سی ٹی ڈی پنجاب کے مطابق آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کی ہدایت پر صوبہ بھر میں مبینہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں جاری ہیں۔

ذرائع سی ٹی ڈی پنجاب کے مطابق اُنہیں ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ آئندہ چند ماہ میں دہشت گرد صوبہ پنجاب کا رخ کر سکتے ہیں جن کی روک تھام کے لیے صوبہ میں کومبنگ آپریشن، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن اور دیگر کارروائیاں کی جا رہی ہیں تا کہ صوبے کو کسی بھی بڑی ممکنہ دہشت گردی سے بچایا جا سکے۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے اپنے ترجمان کے ذریعے جواب دیا کہ صوبہ پنجاب میں امن امان کی صورتِ حال اطمینان بخش ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب میں جہاں جہاں جرائم پیشہ افراد متحرک ہوتے ہیں وہیں پنجاب پولیس بھی متحرک ہو جاتی ہے۔

ترجمان آئی جی پنجاب پولیس کے مطابق سی ٹی ڈی پنجاب اِس سلسلے میں دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے جن میں جوائنٹ آپریشن اور سرچ آپریشن شامل ہیں۔


کیا پنجاب اور سندھ میں بھی دہشت گردی کا خطرہ ہے؟

سی ٹی ڈی افسر کے مطابق داعش پاکستان میں دراندازی کی کوشش کر رہی ہے، تاہم ابھی تک پاکستان میں قدم نہیں جما سکی۔ القائدہ غیر فعال ہے اور اس وقت بڑے حملے کرنے کے قابل نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں اپنی کارروائیوں کو پھیلا سکتی ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زیادہ تر اہداف کو خیبر پختونخوا تک ہی محدود رکھے گی۔

ایک سوال کے جواب میں سی ٹی ڈی افسر کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی نسبتاً کم فعال ہے کیوں کہ وہاں کی صوبائی حکومت نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔

خیبرپختونخوا حکومت ایسے الزامات کی تردید کرتے ہوئے واضح کر چکی ہے کہ صوبے میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

کیا انتخابات میں تاخیر کا خدشہ ہے؟

ڈاکٹر عثمان انور سمجھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں امن اومان کی صورتِ حال بہتر ہے جس سے عام انتخابات یا صوبائی سطح پر انتخابات پر کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پولیس کا کام ہے کہ امن ومان قائم رکھا جائے جب کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو افغانستان سے پاکستان میں ان کے آبائی علاقوں میں واپسی کی اجازت دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے غیر مسلح ہو کر اپنے گھروں کو جانے کے بجائے سوات اور اس کے گردونواح میں منظم ہوئے اور خوف و ہراس پھیلانا شروع کر دیا ہے۔

پیر کو نجی ٹی وی چینل "جیو' سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے بارے میں یہ گمان کیا گیا کہ وہ خود کو پاکستان کے آئین کے تابع کر کے پرامن طریقے سے رہیں گے، جو غلط ثابت ہوا بلکہ کے منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغانستان سے بات کرنا ہو گی کہ وہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہیں کریں گے۔

منگل کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پشاور حملے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا کہ افغان جنگ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں "بے روزگار' افراد کو پاکستان آنے کی اجازت دی گئی۔اُن کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تباہ کن ثابت ہوا۔

اُن کا کہنا تھا کہ دو سال قبل ہمیں بتایا گیا کہ ان لوگوں سے بات چیت ہو سکتی ہے۔ اس وقت مختلف آرا سامنے آئی تھیں۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ دہشت گردی کے بیج ہمیں نے خود بوئے اور جب افغان جنگ میں روس کے خلاف لڑائی شروع ہوئی تو ہم نے کرائے کے طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔

XS
SM
MD
LG