رسائی کے لنکس

شام میں باغی تنظیموں کے مابین جھڑپوں میں شدت


شام کے علاقے میں منبج کے نواح میں ترکی کے حمایت یافتہ جنگجو گشت کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
شام کے علاقے میں منبج کے نواح میں ترکی کے حمایت یافتہ جنگجو گشت کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اب تک لڑائی میں مختلف تنظیموں کے درجنوں جنگجو مارے جاچکے ہیں۔

شام میں شمال مغربی علاقوں میں سرگرم باغی تنظیموں کی آپس کی لڑائی شدت اختیار کرگئی ہے اور مختلف تنظیموں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ کئی علاقوں تک پھیل گیا ہے۔

باغیوں اور مقامی رہائشیوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ جھڑپوں کا آغاز تحریر الشام نامی تنظیم کی جانب سے منگل کو حلب کے مغربی نواحی علاقوں میں واقع ان قصبوں پر حملے سے ہوا تھا جو ایک اور باغی تنظیم 'حرکۃ نور الدین زنکی' کےقبضے میں ہیں۔

'تحریر الشام' ماضی میں القاعدہ سے منسلک رہی ہے جب کہ 'حرکۃ نور الدین الزنکی' شامی حزبِ اختلاف کے مرکزی اتحاد 'نیشنل لبریشن فرنٹ' کا حصہ ہے۔

'تحریر الشام' کا کہنا ہے کہ اس نے یہ حملے رواں ہفتے گھات لگا کر کیے جانے والے ایک حملے کے جواب میں کیے ہیں جس میں اس کے پانچ جنگجو مارے گئے تھے۔

'تحریر الشام' نے اس حملے کا الزام 'حرکۃ نور' پر عائد کیا ہے۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ تحریر کے جنگجووں نے بدھ کو علاقے کے ایک اہم قصبے دارۃ عزۃ پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد جھڑپوں کا سلسلہ کئی دیگر علاقوں تک پھیل گیا ہے۔

علاقہ مکینوں نے بتایا ہے کہ تحریر الشام کے حملوں کے بعد نیشنل لبریشن فرنٹ نے تحریر کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے اور علاقے میں جنگجووں کی مزید کمک روانہ کردی ہے۔

فرنٹ کے جنگجووں نے پڑوسی صوبے ادلب میں بھی تحریر الشام کے کئی علاقوں اور چوکیوں پر حملے کیے ہیں۔

باغیوں کے مطابق گو کہ فریقین کے درمیان جاری لڑائی نے اب تک آبادیوں کا رخ نہیں کیا لیکن اندیشہ ہے کہ اگر جھڑپیں فوری طور پر نہ رکیں تو یہ گنجان آباد علاقوں تک پھیل سکتی ہیں۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اب تک لڑائی میں مختلف تنظیموں کے درجنوں جنگجو مارے جاچکے ہیں۔

شام کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے ماہرین اور اداروں کا کہنا ہے کہ گو کہ تحریر الشام کے جنگجووں کی تعداد نیشنل لبریشن فرنٹ میں شامل تنظیموں کے جنگجووں کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ادلب کی سب سے مضبوط اور موثر باغی تنظیم ہے۔

ادلب شام میں باغیوں کے زیرِ قبضہ بچ جانے والا سب سے بڑا علاقہ ہے جس کے مختلف حصوں پر مختلف باغی تنظیمیں قابض ہیں۔ لیکن صوبے کا بیشتر علاقہ تحریر الشام کے پاس ہے۔

شام میں مسلح باغی تنظیموں اور گروہوں کے باہمی اختلافات نے صدر بشار الاسد کے خلاف 2011ء سے جاری تحریک کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور کئی تجزیہ کار تحریک کے کامیاب نہ ہونے کا سبب حزبِ اختلاف کی باہمی تفریق کو قرار دیتے ہیں۔

مسلح باغی تنظیموں کی آپس کی لڑائی کے باعث صدر بشار الاسد اور ان کے اتحادیوں نے ان بیشتر علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا ہے جو ایک وقت میں باغیوں کے قبضے میں چلے گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG