رسائی کے لنکس

رپورٹرز ڈائری: کیسے یقین دلاوں کہ رپورٹر ہوں؟


لاک ڈوان کے سبب شہر میں لگے مختلف ناکوں سے گزرنا اور بحث کرنا اب معمول بن چکا ہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ باہر نکلنے کی وجہ جاننے کی دلیل پولیس کی نسبت رینجرز کو ذرا مشکل سے سمجھ آتی ہے۔

یوں تو اب زیادہ تر کام گھر سے ہی کرنا پڑ رہا ہے، لیکن ٹی وی اور ڈیجیٹل اسٹوریز جن میں رپورٹر کا موجود ہونا لازمی ہے، اس کے لئے بہرحال ہر صورت باہر نکلنا ہی پڑتا ہے۔ اب جب کہ کریم اور اوبر سروسز بھی تاحکم ثانی معطل ہیں، تو ایسے میں کہیں بھی جانے کے لئے رکشہ ہی بہترین سواری ہے۔

جس رکشے والے کے ساتھ میں اپنے صحافتی کام کی وجہ سے جاتی ہوں، اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ جہاں بھی جاؤں واپسی بھی اس کے ساتھ ہو، کیونکہ اسے پولیس اور رینجرز کی جانب سے باہر نکلنے پر کئی بار زبانی ڈانٹ ڈپٹ اور بعض مرتبہ ایک دو ہاتھ بھی پڑ چکے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں بلاوجہ باہر کیوں نکلے۔

حالات چاہے کیسے بھی ہوں، روزی کمانا ہر ایک کی مجبوری ہے، تو دس روز گھر میں رہنے کے بعد طاہر نے بھی فیصلہ کیا کہ کچھ گھنٹے ہی سہی لیکن وہ رکشہ لیکر ضرور نکلے گا تاکہ کوئی سواری مل جائے اور کچھ رقم بن جائے۔

طاہر 24 برس کا نوجوان ہے اور وہ پڑھا لکھا بھی ہے۔ وہ میرے کام کی نوعیت سے واقف ہے۔ کب کہاں کتنی دیر ہو گی، اس پر کبھی بحث نہیں ہوتی۔ بس ایک تلقین اس کی جانب سے ہے کہ لاک ڈوان کا وقت 'سخت ہونے' یعنی پانچ بجنے سے قبل کام ختم کر لیا جائے تاکہ واپسی میں آسانی رہے۔

وہ کراچی کے تمام راستوں سے واقف ہے۔ اس وقت اس کی روزانہ کی ذمہ داری میں سول اسپتال کی ایک ڈاکٹر کو لے جانے اور واپس لانے کی ہے، اور دوسری میں، جسے رپورٹنگ کی غرض سے کب، کہاں، اور کس وقت جانا پڑ جائے۔ بقول اس کے کہ ہم دو خواتین کی وجہ سے وہ کئی بار پولیس اور رینجرز کی مار سے بھی بچ چکا ہے۔

ٹی وی کی ایک اسٹوری کے شوٹ کے لئے مجھے صدر کے علاقے میں جانا پڑا۔ دوپہر ایک بجے کے قریب گلبہار (گولیمار) کے علاقے میں ٹریفک کا دباؤ زیادہ ملا۔ پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں اور آنے جانے والوں سے پوچھ گچھ جاری تھی۔

طاہر سے پوچھا گیا کہ کہاں جا رہے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کر کے کہا، باجی کو پریس کلب جانا ہے۔ پولیس والے نے مجھے دیکھا اور پوچھا کہ کیا آپ صحافی ہیں؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور انھوں نے رکاوٹ ہٹا کر جانے کا اشارہ کر دیا۔

سدرا ڈار
سدرا ڈار

واپسی پر پانچ بج چکے تھے۔ اب تمام شہریوں کو کسی نہ کسی طرح گھر تو واپس پہنچنا تھا۔ جگہ جگہ رکاوٹیں لگا دی گئیں تھیں۔ ہم بھی اس سڑک پر ٹریفک جام میں پھنسے تھے جہاں سب وجہ بتا کر ہی آگے نکل سکتے تھے۔

طاہر کو یقین تھا کہ ایک صحافی ساتھ ہے اور اسے راستہ مل جائے گا۔ لیکن وہ غلط تھا۔ آگے پولیس نہیں رینجرز موجود تھی۔ ہمیں روکا گیا اور سب سے پہلے طاہر کی شامت آئی۔ اس نے کہا کہ سواری ساتھ ہے اور گھر واپس جا رہے ہیں۔

مجھے ڈر تھا کہ کہیں اس غریب کو ایک دو ہاتھ نہ پڑ جائیں تو فوراً مداخلت کرنا پڑی اور کہنا پڑا کہ میں کام سے نکلی تھی اور اب واپسی ہے۔

سوال ہوا کہ کیا کام تھا۔ جواب دیا کہ آفس کا کام تھا۔ رینجرز والے کو شاید میری بات کا یقین نہیں آیا اور اس نے کہا کہ آفس تو بند ہیں۔ لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں بی بی۔ آپ کیوں جھوٹ بول رہی ہیں۔

میں نے انھیں کہا کہ میں صحاٖفی ہوں اور مجھے ایک شوٹ کے لئے جانا تھا۔

جس پر مجھ سے تصدیق کے لئے دفتری کارڈ مانگا گیا۔ میں نے کارڈ دکھا دیا تو بھی وہ مطمئن دکھائی نہ دیے اور بڑبڑا کر آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ خیر راستہ مل گیا اور اس سے آگے بھی اسی طرح پوچھ گچھ جاری رہی اور میں باآلاخر گھر پہنچ گئی۔

کچھ روز بعد میری ایک واقف کار جن کا شناختی کارڈ پر مستقل پتہ پرانا ہے اور وہ اب کرائے کے گھر میں رہتی ہیں۔ انھیں یہ تکلیف اٹھانا پڑی کہ رینجرز نے یہ کہہ کر انہیں واپس بھیجا کہ جہاں آپ اپنا گھر بتا رہی ہیں، وہ شناختی کارڈ پر درج نہیں تو آپ جہاں سے آئی ہیں، وہیں واپس جائیں اور یوں نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں اپنی والدہ کے گھر جانا پڑا جن کی عیادت کو وہ آئی تھیں۔

یہاں سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا روزانہ ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسی صورت حال میں وہ یہ بہتر طور پر پرکھ سکتے ہیں کہ کون مجبوری میں نکلا ہے اور کون شوقیہ۔ ان سب کو ایک ہی طرح سے ڈیل کرنا کچھ مناسب نہیں۔ کیونکہ اب تک میرا جتنی بار بھی باہر نکلنا ہوا، رینجرز کا ایک ہی سوال رہا، آپ رپورٹر ہیں ہم کیسے مان لیں؟ جب کارڈ دکھایا جائے تو بھی ان کا انداز بتا رہا ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے لیکن پھر بھی ہم کیسے یقین کر لیں۔

XS
SM
MD
LG