رسائی کے لنکس

’ماری چھوریاں چھوروں سے کم ہیں کے؟‘


فلم ’دنگل‘ کی خوبصورتی میں کیمرہ ورک کے ساتھ ساتھ ان عمدہ مکالموں کا بھی ہاتھ ہے جو فلم کو ایک لمحے کے لیے بھی بوجھل نہیں ہونے دیتے

گذشتہ روز ایک دوست کے ساتھ ریسٹورنٹ میں کھانے کے دوران بحث چھڑ گئی کہ اب اچھی ہندی فلموں کا رواج گویا کم ہوتا جا رہا ہے۔ میری دوست عائشہ کا کہنا تھا کہ، ’’اب ہندی فلموں میں کہانی نہیں ہوتی۔ نہ ہی اداکاروں کا زور اداکاری پر ہوتا ہے۔ ایک دو آئٹم گانے ڈال کے فلم بنا دی جاتی ہے اور وہ اسی بنیاد پر ہٹ بھی ہو جاتی ہیں‘‘۔

بحث طویل ہوتے ہوتے ’دنگل‘ کی طرف جا نکلی، جس کے بارے میں سلمان خان کا کچھ روز پہلے کیا گیا ایک ٹوئٹ اب تک زیر ِبحث ہے جس میں وہ عامر خان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرے خاندان والوں نے دنگل دیکھی جو انہیں سلطان سے کہیں زیادہ پسند آئی۔ میں آپ (عامر خان) سے ذاتی طور پر محبت مگر پیشہ ورانہ طور پر نفرت کرتا ہوں‘‘۔ آخر ’مسٹر پرفیکشنسٹ‘ کی اس فلم نے ایسا کیا جادو کیا تھا کہ پہلوانی کے ہی موضوع پر ایک ہی سال میں بالی ووڈ سے سامنے آنے والی دوسری بڑی فلم کی دھوم پوری دنیا میں سنائی دے رہی تھی؟ یہی جاننے کے لیے ہم نے قریبی واقع ریگل سینما کا رخ کیا جہاں گذشتہ کچھ عرصے سے ہندی اور پاکستانی فلمیں بھی دکھائی جاتی ہیں۔

فلم کی کہانی بھارتی پنجاب کی ریاست ہریانہ کی ڈسٹرکٹ بھوانی کے چھوٹے سے قصبے بلالی کے فوگٹ خاندان کے گرد گھومتی ہے اور ان ہی کی زندگی سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے۔ مہاویر سنگھ فوگٹ جسے پہلوانی سے عشق ہے مگر وہ اپنے عشق سے دستبردار ہو کر ایک چھوٹے سے دفتر میں نوکری پر مجبور ہے کہ بقول فیض ؀ تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے۔ مہاویر سنگھ جو پہلوانی میں بھارت کے لیے عالمی مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتنا چاہتا تھا اب اپنے ہر بچے کی پیدائش پر بیٹے کی تمنا کرتا ہے، تاکہ جو خواب خود نہ پورا کر سکا وہ اسکا بیٹا پورا کر سکے۔ مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا اور مہاویر کے گھر ایک کے بعد ایک بیٹی جنم لیتی چلی گئی اور وہ چار بیٹیوں کا باپ بن گیا۔

مہاویر دل مسوس کر رہ گیا اور بیٹے کی آس کے ساتھ ہی پہلوانی کے جذبے کو بھی تقریباً خیرباد کہہ ہی چکا تھا جب ایک دن اس کے محلے دار اپنے دو لڑکوں کو لے کر اس کی بیٹیوں کی شکایت لگانے آئے جنہوں نے محلے دار کے بیٹوں کو مار مار کر ادھ موا کر ڈالا تھا۔ تب مہاویر کو احساس ہوا کہ اس کی بیٹیوں کے خون میں بھی وہی پہلوانی دوڑ رہی ہے جو اس کی رگوں میں دوڑتی ہے۔

فلم کی کہانی یہاں سے نیا موڑ لیتی ہے۔ وہ موڑ جس نے فوگٹ خاندان کے ساتھ ساتھ بلالی کے اس چھوٹے سے قصبے کی تقدیر بدل ڈالی اور اسے بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ مہاویر سنگھ فوگٹ اپنی بیوی کی جانب سے بیٹیوں کی پہلوانی پر ہچکچاہٹ اور گاؤں والوں کی شدید مخالفت اور طعنوں کے باوجود اپنی دونوں بڑی بیٹیوں گیتا کماری اور ببیتا کماری کو فن ِپہلوانی کے داؤ پیچ سکھاتا ہے اور انتہائی کم وسائل کے باوجود اپنی بیٹیوں کو سخت ٹریننگ دینا اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتا ہے۔ اور یہی لگن ان لڑکیوں کو نیشنل چیمپئن اور پھر عالمی چمپئن شپ تک لے جاتی ہے۔

فلم کی خوبصورتی میں کیمرہ ورک کے ساتھ ساتھ ان عمدہ مکالموں کا بھی ہاتھ ہے جو فلم کو ایک لمحے کے لیے بھی بوجھل نہیں ہونے دیتے۔ فلم کا ایک اچھا حصہ وہ بھی ہے جہاں گیتا کماری نیشنل اکیڈمی جاتی ہے اور اپنے نئے کوچ سے متاثر ہوکر اپنے باپ کی ٹریننگ کو فرسودہ قرار دیتی ہے۔ مگر نئے کوچ کے طریقوں سے وہ پے در پے کئی مقابلے ہارتی ہے اور پھر اپنے باپ سے معذرت کرکے اپنے باپ کے بتائے ہوئے طریقوں پر ہی چلتے ہوئے 2010ء کے کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوتی ہے اور ایک نئی تاریخ رقم کرتی ہے۔

فلم میں عامر خان کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے چہرے بھی دکھائی دئیے جن میں جونئیر اداکارہ زائرہ وسیم اور سوہانی بھٹناگر شامل تھیں جبکہ گیتا کماری کا کردار فاطمہ ثناء شیخ اور ببیتا کماری کا کردار سنیہ ملہوترا نے ادا کیا ہے۔ تمام اداکاروں نے اپنے کردار کے ساتھ انصاف برتا ہے۔ عامر خان نے اس فلم میں 55 سالہ پہلوان مہاویر سنگھ فوگٹ کے کردار میں ڈھلنے کے لیے 98 کلو تک وزن بڑھایا اور وہ اُس عامر خان سے بہت مختلف دکھائی دئیے جنہیں ہم فلموں میں دیکھتے ہیں۔

فلم 23 دسمبر 2016ء کو بھارت اور 22 دسمبر 2016ء کو دنیا بھر میں ریلیز کی گئی۔ 70 کروڑ کے بجٹ سے بنائی گئی یہ فلم چار دنوں میں 205 کروڑ روپے کا بزنس کر چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG