زمبابوے کے سابق صدر رابرٹ موگابے 95 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔
رابرٹ موگابے تقریباً 37 سال کے طویل عرصے تک اقتدار میں رہے اور 2017 میں انہوں نے صدارت سے استعفیٰ دیا تھا۔
خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق موگابے کے انتقال کی تصدیق جمعے کو اُن کے جانشین اور زمبابوے کے موجودہ صدر ایمرسن ننگاگوا نے اپنی ایک ٹوئٹ کے ذریعے کی۔ جس میں انہوں نے موگابے کو زمبابوے کی آزادی کی علامت قرار دیا ہے۔
ننگاگوا نے کہا کہ رابرٹ موگابے آزادی کی علامت تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی ایک نجات دہندہ کے طور پر اپنے لوگوں کو بااختیار بنانے میں وقف کی۔ قوم اور افریقہ کے لیے موگابے کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
یاد رہے کہ رابررٹ موگابے نے 1980 میں اُس وقت اقتدار سنبھالا تھا جب زمبابوے میں سفید فام کے دورِ اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا۔
زمبابوے میں 1980 سے قبل سفید فام باشندوں کی حکومت تھی جو اقلیت میں تھے۔ غیر سفید فام جنگجوؤں اور مقتدر طبقے میں خونریز جنگ ہوئی جس کے بعد اقتدار رابرٹ موگابے کو ملا۔
موگابے نے اپنے دورِ حکومت میں تعلیم پر زور دیا اور نئے اسکول بنوائے۔ زمبابوے میں سیاحت اور کان کنی کو بھی اُن کے دور حکومت میں فروغ ملا۔
موگابے 1980 سے 1987 تک زمبابوے کے وزیرِ اعظم رہے۔ اس کے بعد انہوں نے صدارت کا منصب سنبھالا جس پر وہ 2017 تک فائز رہے۔ اپنے طویل دورِ اقتدار کے بارے میں ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ وہ زندگی بھر حکومت کرنا چاہیں گے۔
لیکن وہ اپنی اس خواہش کو مکمل نہیں کرسکے۔ ملک میں بڑھتے مسائل کے سبب زمبابوے میں فوجی مداخلت ہوئی اور اُنہیں 2017 میں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
موگابے کو اقتدار سے ہٹانے پر زمبابوے میں بڑی تعداد میں مظاہرے بھی ہوئے۔ ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر مظاہرے کرتی رہی جب کہ دوسری جانب ان کے مخالفین نے خوشیاں منائیں۔
نومبر 2017 کو جب رابرٹ موگابے نے صدارت سے استعفیٰ دیا تو زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے میں اُن کے مخالفین نے سڑکوں پر گانے بجا کر اور رقص کر کے خوشیاں منائیں۔ ان کے مخالفین نے موگابے کے اقتدار چھوڑنے کے بعد بہتر مستقبل کی امید کا بھی اظہار کیا تھا۔
موگابے پر 2008 میں طاقت کے غیر آئینی استعمال اور ووٹ فراڈ کے الزامات بھی لگائے گئے لیکن اس کے باوجود وہ 2008 میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
موگابے زمبابوے کی معاشی مشکلات کا ذمّہ دار بین الاقوامی پابندیوں کو قرار دیتے رہے تھے۔
رابرٹ موگابے کے انتقال کے بعد ہرارے کی سڑکوں پر لوگ دو طبقوں میں بٹے نظر آئے۔ کئی افراد یہ کہتے رہے کہ زمبابوے کی تمام مشکلات انہی کی وجہ سے ہیں جب کہ بیشتر لوگوں نے یہ کہا کہ وہ موگابے کی کمی محسوس کریں گے۔