رسائی کے لنکس

میانمار: روہنگیا مسلمان نئی حکومت کے اقدام سے مایوس


میانمار میں بے گھر ہونے والا روہنگیا ایوب خان جو اقوام متحدہ کے کیمپ میں مقیم بے گھر افراد کو دوائیں فروخت کرتا ہے۔
میانمار میں بے گھر ہونے والا روہنگیا ایوب خان جو اقوام متحدہ کے کیمپ میں مقیم بے گھر افراد کو دوائیں فروخت کرتا ہے۔

این ایل ڈی نے سابق فوجی حکومت کے مؤقف کی تائید کی ہے جس نے لگ بھگ دس لاکھ بے وطن روہنگیا افراد کے مطالبات کو مسترد کر دیا تھا۔

میانمار میں گزشتہ سال ہونے والے انتخابات کے بعد نوبل انعام یافتہ آنگ سان سو چی کی جمات نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے اقتدار میں آنے کے بعد روہنگیا مسلمانوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی تھی کہ اب ان کے حالات بدلیں گے مگر وہ امید معدوم ہو رہی ہے۔

نئی حکومت کی طرف سے امریکی سفارتخانے کو بھیجی گئی درخواست کہ وہ ’روہنگیا‘ کی اصطلاح استعمال نہ کرے اور اور ان کی شہریت سے متعلق تصدیق کے متنازع عمل کو دوبارہ شروع کرنے پر روہنگیا برادری میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔

2012 میں میانمار کی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان ہونے والے فسادات میں لگ بھگ 200 روہنگیا مارے گئے جبکہ ہزاروں بے گھر ہو گئے تھے۔ اس وقت لگ بھگ ایک لاکھ روہنگیا 20 ہزار کیمپوں میں مقیم ہیں۔

ایوب خان بھی ان افراد میں سے ایک ہیں جو رخائن ریاست کے دارالحکومت سِٹوے کے باہر ایک بنجر علاقے میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں چلنے والے ایک بوسیدہ اور تنگ کیمپ میں 4,800 افراد کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ فسادات سے پہلے وہ اچھی زندگی گزار رہے تھے مگر فسادات میں ان کا سب کچھ تباہ ہو گیا اور اب وہ اپنے آٹھ بچوں اور دیگر اہل خانہ کی کفالت کرنے کے قابل نہیں۔

اکثر روہنگیا اب سائیکل رکشہ چلا کر، ماہی گیری اور سامان ڈھو کر حاصل ہونے والی معمولی آمدن پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ کچھ چھوٹی دکانیں چلاتے ہیں یا علاقے میں سرگرم امدادی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

پچھلے برس تک غربت، خراب حالاتِ زندگی اور سفر اور سرکاری خدمات پر پابندیوں کے باعث ہزاروں روہنگیا افراد روزگار کی تلاش میں خطرناک سمندری راستے کے ذریعے ملائیشیا جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔

ایوب خان کے بقول این ایل ڈی کے اقتدار میں آنے کے بعد لوگوں میں امید پیدا ہوئی کہ شاید اب حالات تبدیل ہوں گے اور انہیں بھی برابری کی سطح پر مواقع دستیاب ہوں گے۔

تاہم این ایل ڈی نے سابق فوجی حکومت کے مؤقف کی تائید کی ہے جس نے لگ بھگ دس لاکھ بے وطن روہنگیا افراد کے مطالبات کو مسترد کر دیا تھا۔ روہنگیا برادری کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان رخائن میں کئی نسلوں سے آباد ہیں اور اپنی روہنگیا شناخت کے ساتھ ملک کی شہریت چاہتے ہیں۔

تاہم سابق حکومت کا کہنا تھا کہ ان میں سے کئی حالیہ دہائیوں میں بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے وہاں پہنچے ہیں اور وہ انہیں ’’بنگالی‘‘ کہتی ہے۔

ایک مقامی روہنگیا رہنما کوا ہلا آنگ نے کہا کہ این ایل ڈی کے حالیہ فیصلوں سے مسلم برادری کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔

’’لوگ بہت اداس ہیں کیونکہ این ایل ڈی ہمارے لیے کچھ نہیں کر رہی اور انہوں نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔‘‘

کیمپ میں مقیم ایک اور نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’لوگوں نے سنا ہے کہ آنگ سان سو چی روہنگیا کا لفظ استعمال کرنا نہیں چاہتیں۔ ان کی اس نئی حکومت اور پارلیمان سے امیدیں ختم ہو رہی ہیں۔‘‘

روہنگیا کو میانمار میں نسلی گروپ تسلیم نہیں کیا جاتا اس لیے انہیں کوئی شہریت حاصل نہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں اُنھیں ووٹ دینے کی اجازت نہیں تھی۔

میانمار کی مرکزی حکومت اور رخائین کی بدھ برادریاں اُن کے لیے ’روہنگیا‘ کا نام استعمال کرنے کی مخالف ہیں۔ یہ اصطلاح متنازع ہے جو شمالی رخائین کے قصبہ جات میں رہنے والے 13 لاکھ مسلمانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

ایک متنازع قانون کے تحت شہریت حاصل کرنے کے لیے روہنگیا کو اپنے آپ کو بنگالی تسلیم کرنا ہو گا اور روہنگیا کے طور پر نام درج کرانے والے کو شہریت نہیں دی جاسکتی۔

تاہم روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی شناخت سے منحرف نہیں ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG