رسائی کے لنکس

سیاسی تنازعات اور عدلیہ کا کردار: ’سپریم کورٹ تنی ہوئی رسی پر چل رہی ہے‘


Supreme Court of Pakistan
Supreme Court of Pakistan

پاکستان میں ہر کچھ عرصے بعد اداروں کی آئینی حدود کا سوال بحث کا موضوع بنتا ہے۔ ماضی میں یہ بحث سول اور فوجی حکمرانی کا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس میں عدالت بھی ایک فریق بنتی چلی گئی۔

آئینی ماہرین کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی مسائل سیاست کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے تائید اور جھکاؤ کی بنیاد پر حل ہونا ہے۔

رواں برس اپریل میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم کو پیش ہونے سے پہلے مسترد کرنے کی اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کے بعد سے پارلیمنٹ اور عدالت کے حدود و قیود پر بحث زور شور سے جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے پنجاب اسمبلی میں پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت کے خط کی بنیاد پر ق لیگ کے ووٹ شمار نہ کرنے کی ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ نے اس بحث کا دائرہ مزید وسیع کردیا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو عدالت اور پارلیمنٹ کے اختیار کے درمیان امتیاز کا یہ سوال پہلے بھی پیدا ہوتا رہے البتہ اس کا جواب اور ان اداروں کے کردار میں بتدریج تبدیلی آتی رہی ہے۔

اسپیکر کی رولنگ پر 1956 میں ہونے والا فیصلہ

ملک میں 23 مارچ 1956 کو آئین نافذ ہونے کے بعد انتظامی طور پر پاکستان مغربی حصے میں شامل تمام صوبوں کو ملا کر ایک صوبہ بنا دیا گیا تھا جب کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی پر مشتمل مشرقی بنگال کو بھی صوبہ قرار دیا گیا تھا۔ اس انتظامی بندو بست کو ون یونٹ کا نام دیا گیا تھا جس کے تحت ملک میں مشرقی و مغربی پاکستان کے دو صوبے وجود میں آئے۔

اس وقت وفاق میں گورنر جنرل ملک غلام محمد سے استعفی دلوا کر اسکندر مرزا پہلے قائم مقام گورنر جنرل بنے اور آئین کے نفاذ کے بعد وہ صدر بن چکے تھے۔

اس دور کی سیاسی تاریخ پر اپنی کتاب ’شب گزیدہ سحر‘ میں ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں کہ مغربی صوبے میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تھے۔ لیکن منتخب ارکان کسی جماعت سے وابستہ ہوجاتے تھے۔ اسکندر مرزا نے ڈاکٹر خان صاحب کو مغربی پاکستان کا وزیرِ اعلی مقرر کیا تھا۔

مسلم لیگ مغربی پاکستان میں اپوزیشن میں تھی کیوں کہ اسکندر مرزا کی مدد سے ڈاکٹر خان نے اسمبلی کے اندر ری پبلکن پارٹی کے نام سے پارلیمانی پارٹی بنا لی تھی۔

ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق اسکندر مرزا اور وزیرِ اعظم چودھری محمد علی کی تائید کی وجہ سے مسلم لیگیوں ںے بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے ری پبلکن پارٹی میں شامل ہونا شروع کردیا تھا۔

اسی سیاسی کشمکش میں 20 مئی 1956 کو مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کا انتخاب ہونا تھا۔

اسپیکر کے لیے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار چوہدری فضل الہی تھے جو بعدازاں صدر مملکت بھی بنے۔ جب کہ مسلم لیگ نے غلام علی تالپور کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔

اجلاس کی سربراہی مغربی پاکستان کے گورنر فیروز خان نون کے نامزد نمائندے کررہے تھے۔ ری پبلکن پارٹی کو بھی درپردہ فیروز خان نون کی تائید حاصل تھی۔

رولز کے مطابق ممبران کو دو گیلریوں میں تقسیم ہوکر اپنا ووٹ دینا تھا۔ اس دوران مسلم لیگ کے رکن میر محمد بخش تالپور نے شکایت کی کہ حکومتی ارکان نے انہیں ووٹ دینے سے روکا ہے۔ جب کہ ایک اور رکن میر محمد وریانی نے شکایت کی کہ ان کا ووٹ زبردستی حکومتی امیدوار کو دلوایا گیا ہے۔

ان شکایات کا ازالہ نہ ہوا تو اپوزیشن سے کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔ اجلاس کی چیئرمین نے اعلان کیا کہ دونوں امیدوار 310 ارکان میں سے اسمبلی میں 301 اراکین موجود تھے۔ جن میں سے دونوں امیدوار 148 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن پھر چیئرمین نے اپنا ووت چوہدری فضل الہی کے حق میں دے کر اور ان کی کامیابی کا اعلان کردیا۔

مسلم لیگ کے رکن احمد سعید کرمانی یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے گئے جہاں اس وقت کے چیف جسٹس ایس اے رحمان کی سربراہی میں پانچ رکنی فل بینچ سے اس معاملے کی سماعت کی۔

اس درخواست پر عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا کہ اسمبلی ضوابط کے مطابق ہونے والے انتخاب کے عمل اور اسپیکر کے اعلان کردہ نتائج کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور درخواست نمٹا دی۔

’عدلیہ کو سیاسی سوالات سے دوررہنا چاہیے‘

لیکن اس سے ملتی جلتی صورت حال میں حالیہ فیصلوں کے بارے میں پاکستان کی عدالتی اور آئینی تاریخ مرتب کرنے والے سینئر قانون دان حامد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وکلا اور آئینی ماہرین ماضی میں بھی یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ عدالت کو سیاسی امور اور پارلیمنٹ میں طے پانے والے معاملات سے دور رہنا چاہیے۔

انہوں ںے کہا کہ حال ہی میں پارٹی وفاداری تبدیل کرنے والوں کے ووٹ شمار نہ کرنے کے فیصلے کو بھی آئین میں اضافے سے تعبیر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل 1997 میں آٹھویں ترمیم کے خلاف محمود اچکزئی کیس اور فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف اپیل میں بھی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے عدلیہ پارلیمنٹ کے اقدامات اور سیاسی سوالوں سے خود کو دور رکھنا چاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے امریکی سپریم کورٹ کا ’بیکر بنام کار‘ مقدمہ کا فیصلہ بھی نظیر قرار دیا جاتا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ سیاسی معاملات کو اپنے دائرہ اختیار میں نہیں لائے گی۔

تاہم حامد خان کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں جس طرح سپریم کورٹ میں سیاسی مسائل طے کیے جارہے ہیں اس کی زیادہ تر ذمے داری سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔

سینیئر قانون دان اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی کا ہے۔ کوئی بھی خود کو حاصل اختیار سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ مکمل طور پر غیر فعال ہوچکی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی قائدین اپنے اس اصل فورم پر مسائل حل کریں تو عدالتوں تک جانے کی نوبت ہی نہ آئے ۔

’آئینی مسائل عدالت میں آسکتے ہیں‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت جو تحفظ حاصل ہے وہ روزمرہ کارروائی اور پروسیجرز سے متعلق ہے۔ آئینی سوال بہر حال سپریم کورٹ میں لائے جاسکتے ہیں۔

ان کاکہنا تھا کہ رواں برس اپریل میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ آئین کے ایک آرٹیکل ہی کو بے معنی کررہی تھی اس لیے وہاں عدالت کی مداخلت درست تھی۔

رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی ق لیگ کے ووٹ شمار نہ کرنے کی رولنگ کو بھی درست تسلیم نہیں کرتے۔ تاہم ان کے نزدیک یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے کی وجہ سے پیدا ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ 63 اے سے متعلق ریفرنس کے فیصلے میں وہ اقلیتی رائے دینے والے ججز کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ آرٹیکل مکمل ہے اور اس کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔ لیکن منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ رکنے کے اکثریتی فیصلے کی بنیاد پر یہ مسئلہ کھڑا ہوا ہے

بینچ کی تشکیل پر اعتراضات

وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ سپریم کورٹ میں جانے پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈٰ ایم) میں شامل جماعتوں نے سماعت کرنے والے بینچ پر تحفظات کا اظہار کیا اور فل کورٹ تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔

اس بارے میں قانونی ماہر بیرسٹر سالار خان کا کہنا ہے کہ اصولی بات تو یہی ہے کہ عدلیہ کو سیاسی تنازعات سے دور رہنا چاہیے لیکن فیصلے بہرحال جج صاحبان ہی نے کرنے ہوتے ہیں جو اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور ان کی جھکاؤ کسی بھی سیاسی فکر کی جانب ہوسکتا ہے۔

ان کے مطابق اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہےجب یہ بینچ کی تشکیل جیسے امور میں بھی اس کا اظہار ہونے لگے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو بینچ کی تشکیل کا پورا قانونی اختیار ہے اور ایسے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے ان قوانین میں اصلاحات لائی جاسکتی ہیں۔

جسٹس رشید اے رضوی کا کہنا ہے بینچ کی تشکیل پر بار بھی تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ جس دور میں جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے اس دور میں بھی جسٹس سعید الزماں اور ان کے درمیان بینچ کی تشکیل پر تنازعات سامنے آتے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 1982 میں بننے والے ضوابط کی بنیاد پر یہ اختیارات چیف جسٹس کو حاصل ہیں اور چالیس سال گرزنے کے باوجود ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

رشید رضوی کہتے ہیں کہ بینچ کی تشکیل پر قانون کے دائرے میں اعتراض کرنا چاہیے۔ کئی مثالیں ہیں کہ وکلا عدالت کے اندر بینچ کی از سر نو تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ عدالت کے اندر ہونا چاہیے۔ یہاں تو ہر فریق دھمکیاں دے رہا ہے کہ اسے اپنی مرضی کا بینچ چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ پریس کانفرنسز کرکے بینچ کی تشکیل کے فیصلے ہونے لگے تو اس سے عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا ہوگا۔

حامد خان بھی اسی رائے کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہ بات کی جاسکتی ہے کہ چوں کہ 63 اے کی تشریح کا فیصلہ پانچ رکنی بینچ نے کیا تھا اس لیے اس معاملے پر لارجر یا اس سے بڑا بینچ بنا دیا جائے۔ لیکن عدالت کو بینچ کی تشکیل پر کسی دباؤ میں آکر فیصلے نہیں کرنے چاہییں۔

بیرسٹر سالار خان کا کہنا ہے اگرچہ یہ معاملے کا سیاسی پہلو ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ایک جماعت کا بیرونی دباؤ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے تو پھر دوسری جماعتیں بھی یہی راستہ اختیار کرتی ہیں۔

ان کے مطابق آئین و قانون اپنی جگہ لیکن یہ تاثر تو پایا جاتا ہے کہ تحریکِ انصاف کو اس دباؤ کا فائدہ حاصل ہوتا رہا ہے اس لیے دیگر سیاسی جماعتیں بھی اسی لیے یہ راستہ اختیاری کررہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ فل کورٹ نہ بھی ہو لیکن اس معاملے پر کم از کم ایک لارجر بینچ بننا چاہیے۔

سالار خان نے کہا کہ 2015 میں آٹھ رکنی بینچ کے ایک فیصلے میں بھی پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات سے متعلق بات کی گئی ہے جو 63 اے پر پانچ رکنی بینچ کے فیصلے سے مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ 2015 کا یہ کیس اکیسویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق تھا اور اس میں ضمنی طور پر پارٹی سربراہ کے اختیارات بھی زیرِ بحث آئے تھے لیکن بہرحال یہ سپریم کورٹ کی آئینی رائے تو شمار ہوگی بھلے ہی اس پر عمل درآمد لازم نہ ہو۔

سالار خان کے مطابق معاملہ چوں کہ اسی شق سے متعلق ہے اس لیے اس بات میں وزن تو ہے کہ ایک بڑے بینچ کو اس کی سماعت کرنی چاہیے۔

’فیصلے حالات نہیں آئین و قانون کے مطابق ہونے چاہییں‘

حامد خان کہتے ہیں عدلیہ کو دباؤ کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ امریکہ میں حال ہی میں سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کو بنیادی حق تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اس شدید ردعمل آیا۔ عدالت کے باہر مظاہرے ہوئے۔ پاکستان میں بھی ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ اس لیے جو بھی فیصلہ کیا جائے اس میں رد عمل کو پیشِ نظر نہیں رکھنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت میں عدالت کے سامنے یہ سوال ہے کہ 63 اے سے متعلق ان کے اپنے فیصلے اور پنجاب اسمبلی میں درپیش صورت حال میں مطابقت پائی جاتی ہے یا نہیں۔ عدالت کو یہ کیس اس سوال سے ہٹ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔

سالار خان کا کہنا ہے کہ عدالت کو حالات کے بجائے آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلے کرنے پڑیں گے۔ ان کے اپنے فیصلے کے مطابق بظاہر پنجاب اسمبلی میں ڈالے گئے ووٹ شمار نہیں ہونے چاہییں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی نہیں آیا ہے اس لیے عدالت کو درپیش سوال مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے لیکن بہرحال اس وقت سپریم کورٹ اپنے ہی فیصلوں کی کسی جامع تشریح کے معمے سے دوچار ہے۔ اس میں صرف یہی ہوسکتا ہے کی تکنیکی پہلوؤں کے اثرات پر بحث ہوسکتی ہے کہ پارٹی سربراہ کا خط کب موصول ہوا اور ڈپٹی اسپیکر نے اسے ارکانِ اسمبلی کے سامنے کب رکھا۔ اسی بنیاد پر عدالت اس معاملے پر کوئی ایسی رائے دے سکتی ہے جو اس کے اپنے فیصلے سے مختلف ہو۔

جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اس وقت تنی ہوئی رسی پر چل رہی ہے۔ سیاست کے میدان میں پیدا ہونے والے سوالات جب بھی عدالتوں میں آتے ہیں تو یہی ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مثالی حل تو یہی ہے کہ سیاسی جماعیتں مل کر بیٹھیں اور کوئی راہ نکالیں لیکن اس کے آثار کم نظر آتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG