رسائی کے لنکس

موجودہ حالات میں مزاحمت ہی واحد راستہ ہے: ایران


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ مذاکرات اور سفارت کاری ہمیشہ ان کی ترجیح رہے ہیں لیکن موجودہ حالات میں بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے 'ارنا' کے مطابق پیر کو ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ موجودہ حالات مذاکرات کے لیے سازگار نہیں اور اس وقت ایران کے پاس واحد راستہ مزاحمت اور جدوجہد ہے۔

ایرانی صدر کا یہ بیان امریکہ کے ساتھ جاری محاذ آرائی کے دوران سامنے آیا ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔

اس سے قبل پیر کو اپنے ایک بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اسے پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔

وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ ایران نے واشنگٹن سے کھلی دشمنی مول لے رکھی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر ایرانی قیادت چاہے تو وہ بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

لیکن پیر کو تہران میں علما کے ایک اجلاس سے خطاب میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس کے مکین گزشتہ 40 برسوں سے ایران کے خلاف سرگرم ہیں اور ہتھیاروں اور دباؤ کے ذریعے ایران کو زیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ دشمن کی مستقل یہ کوشش رہی ہے کہ ایران محاذ آرائی کا آغاز کرے۔ لیکن ان کے بقول "ہم نے اب تک ایسا نہیں ہونے دیا۔"

امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب صدر ٹرمپ کی حکومت یک طرفہ طور پر اس جوہری معاہدے سے الگ ہوگئی تھی جو 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا۔

معاہدے سے الگ ہونے کے بعد امریکی حکومت نے ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندیاں بحال کردی تھیں جو رواں ماہ موثر ہوئی ہیں۔

ان پابندیوں کے موثر ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی شدت اختیار کرگئی ہے جس میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب امریکہ نے اپنا طیارہ بردار جہاز، جنگی طیارے اور میزائل بیٹریاں مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا اعلان کیا۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام خطے میں اپنے مفادات پر ایران کے ممکنہ حملے کے خدشے کے پیشِ نظر اٹھایا ہے۔

امریکی اقدامات کے جواب میں ایران نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ اس نے یورینیم کی افزوگی چار گنا بڑھا دی ہے جو مبینہ طور پر 2015ء کے جوہری معاہدے میں طے پانے والی شرائط کے خلاف ہے۔

XS
SM
MD
LG