جب سے سنہ 2012 میں ولادیمیر پیوٹن دوبارہ منتخب ہوئے ہیں روسیوں کے آزادی اظہار اور اجتماع پر بڑے پیمانے پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ یہ بات ماہرین کے ایک گروپ نے اپنی رپورٹ میں بتائی ہے، جنھوں نے ہفتے بھر واشنگٹن میں روس کی انسانی حقوق کی صورت حال کے موضوع پر گفتگو کی۔
اجلاس کے شرکا کے مطابق، وزیر اعظم کی میعاد پوری ہونے کے بعد، پیوٹن دوبارہ روسی صدر بنے۔ تب سے حکام نے مخالفین سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں کے خلاف سنگین ’کریک ڈاؤن ‘کیا ہے، جنھیں ’’غدار‘‘ اور ’’سازشی عناصر‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
غیر سرکاری تنظیموں پر بھی مظالم ڈھائے گئے ہیں، جس میں روسی پارلیمان نے خصوصی قوانیں منظور کیے ہیں، جس میں مخالفین کو نام نہاد ’’غیر ملکی ایجنٹ‘‘ اور ’’نامعقول تنظیمیں‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
پولا ڈبریانسکی سنہ 2001 سے 2009 تک امریکی معاون وزیر برائے جمہوریت اور عالمی أمور کے طور پر فرائض انجام دے چکی ہیں۔ اِن دِنوں وہ ’ہارورڈ یونیورسٹی کے جان ایف کنیڈی اسکول آف گورنمنٹ‘ میں ’بیلفر سینٹر فور سائنس اور انٹرنیشنل افیئرز‘ سے وابستہ سینئر فیلو ہیں۔
روسی رائے عامہ کے جائزے کے مطابق، اُنھوں نے بدھ کے اجلاس کو بتایا کہ پیوٹن انتظامیہ، جو کہ خاصی مقبول ہیں، کی جانب سے مظالم کی لہر کی ایک حد تک وضاحت کی جانی ضروری ہے۔
پولا نے کہا کہ پیوٹن کی مقبولیت کے پیچھے اُن کے اقتدار کے دوران ہونے والی زیادتیاں چھپی ہوئی ہیں۔