رسائی کے لنکس

یقین نہیں کہ طالبان واقعی امن چاہتے ہیں: زلمے خلیل زاد


افغان مفاہمت کے لیے امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد (فائل فوٹو)
افغان مفاہمت کے لیے امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد (فائل فوٹو)

امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ افغان حکومت 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی خواہش مند ہے لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا طالبان بھی درحقیقت امن چاہتے ہیں۔

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ انہیں اس بارے میں شکوک و شبہات ہیں کہ کیا طالبان حقیقت میں افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں یا نہیں۔

جمعرات کو کابل میں افغان خبر رساں ادارے 'آریانا نیوز' کے ساتھ ایک انٹرویو میں خلیل زاد نے طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ ملنے سے انکار پر تحفظات کا اظہار کیا۔

امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ افغان حکومت 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی خواہش مند ہے لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا طالبان بھی درحقیقت امن چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور طالبان کے آئندہ اقدامات کا جائزہ لینا ہوگا۔

انٹرویو میں خلیل زاد نے ایک بار پھر زور دیا کہ افغانستان میں آئندہ سال اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل فریقین کے درمیان امن معاہدہ ہوجانا چاہیے۔ تاہم ان کے بقول اس بات کا انحصار (افغان) حکومت اور طالبان پر ہے۔

امریکہ کا اصرار ہے کہ افغانستان کے مستقبل سے متعلق کوئی بھی معاہدہ افغانوں کے درمیان طے پانا چاہیے۔ لیکن طالبان افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست بات چیت سے انکاری ہیں اور ان کا موقف ہے کہ افغان حکومت امریکہ کی مسلط کردہ ہے اور اسی لیے وہ امریکہ سے ہی بات کریں گے۔

تاہم امریکہ نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات پاکستان کوقائل کر سکتے ہیں کہ وہ طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے انہیں افغان حکومت سے براہِ راست بات چیت پر آمادہ کرے۔

اپنے انٹرویو میں خلیل زاد نے بتایا کہ رواں ہفتے ابوظہبی میں ہونے والی بات چیت کے دوران دونوں ملکوں نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تین ماہ کے جنگ بندی کی تجویز دی۔

خلیل زاد کے بقول طالبان نے جنگ بندی کی تجویز پر کوئی وعدہ نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اپنی اعلیٰ قیادت سے اس بارے میں مشاورت کرنی ہوگی۔

امریکی ایلچی نے بتایا کہ انہوں نے طالبان پر واضح کردیا ہے کہ اگر دہشت گردی پر قابو پالیا جائے تو امریکہ افغانستان میں اپنی مستقل فوجی موجودگی نہیں چاہے گا۔

دریں اثنا سعودی عرب کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے افغان امن مذاکرات کے آئندہ سال کے اوائل تک مثبت نتائج سامنے آجائیں گے جن سے افغانستان میں 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی امید کی جا سکتی ہے۔

واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر خالد بن سلمان نے جمعرات کو ٹوئٹر پر کہا ہے کہ رواں ہفتے ابوظہبی میں ہونے والی بات چیت مفید رہی اور تنازع کے خاتمے کے لیے افغانوں کے درمیان بات چیت کے عمل کو شروع کرنے میں مدد گار ہو گی۔

یاد رہے کہ ابو ظہبی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں ہفتے ہونے والی بات چیت میں پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ میزبان ملک متحدہ عرب امارات کے نمائندے بھی شریک ہوئے تھے۔

XS
SM
MD
LG