رسائی کے لنکس

سعودی عرب میں انقلابي اقدامات کا پس منظر اور محرکات


محمد بن سلمان بن عبدالعزیز - فائل فوٹو
محمد بن سلمان بن عبدالعزیز - فائل فوٹو

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر روشن خیالی کی جانب جاتے ہوئے سعودی عرب کے اثرات سعودی اثرو رسوخ کے زیراثر افغانستان یا پاکستان جیسے ممالک پر نہیں پڑیں گے۔

شہناز نفیس

سعودی عرب میں بدعنوانی کے الزامات میں موجودہ اور سابق وزرا کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ شہزاد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ سعودی وطن کا وجود برقرار رکھنے کے لیے بدعنوان لوگوں کو بے نقاب کرنا اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں انسٹی ٹیوٹ آف گلف افیئرز کے بانی اور ڈائریکٹر، علی احمد نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹر ویو میں، سعودی عرب میں بدعنوانیوں سے نمٹنے کے نام پر کئے گئے اقدامات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد بدعنوانی کا خاتمہ نہیں بلکہ اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنا ہے۔ اس کے ذریعے بعض شخصيات اور عہدے داروں کو ہدف بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سعودی عوام کئی عشروں سے بدعنوانی سے متاثر ہو رہے ہیں، اس لئے یہ ایک معقول قدم ہے اور اگر اسے کسی اور نیت سے بھی کیا جا رہا ہے تب بھی اسے ایک درست اقدام تصّور کیا جانا چاہیے ۔

ایک سوال کے جواب میں علی احمد کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کسی بیرونی دباؤ کے تحت نہیں کیا گیا بلکہ اس سے شہزادہ محمد کا مقصد اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنا اور مزید دولت حاصل کرنا ہے۔ ان کی نظر میں بہت جلد ہمیں سعودی عربیہ کی جگہ سلمان عربیہ نظر آئے گا۔

علی احمد یہ بھی کہتے ہیں کہ بظاہر روشن خیالی کی جانب جاتے ہوئے سعودی عرب کے اثرات سعودی اثرو رسوخ کے زیراثر افغانستان یا پاکستان جیسے ممالک پر نہیں پڑیں گے۔

دوسری جانب جدہ میں میڈیا اور کاروبار سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون، سمیر عزیز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سعودی عرب میں بدعنوانی، خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق سے متعلق دیگر مسائل کافی عرصے سے چلے آ رہے ہیں اور ان مسائل سے نمٹنے کے لئے اب اگر شہزادہ محمد بن سلمان اصلاحات کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں تو اس پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے اس کو سراہنا چاہیئے۔

کیا ان اقدامات کا تعلق اقتدار کی کشمکش سے ہے؟

اس کے جواب میں سمیرا عزیز کا کہنا تھا کہ اقتدار کی کشمکش ہر جگہ پر ہے اور یہ کہ اس وقت عوام کی نظریں شہزاد محمد بن سلمان کے ویژن 2030 پر لگی ہیں۔ کیونکہ سعودی عوام ترقی کرنا چاہتی ہے، وہ چاہتی ہے کہ ہمارا ملک آگے بڑھے اور اکیسویں صدی کی دنیا کے شانہ بشانہ آگے قدم جمائے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض لوگ ویژن 2030 کی مخالفت حسد اور ذاتی مفاد کی بنیاد پر کررہے ہیں۔

سعودی عرب کے قبائلی اور قدامت پسند طبقے کو یہ اصلاحات کہاں تک قابل قبول ہوں گی؟

سمیرا عزیز کہتی ہیں کہ اگر یہ لوگ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو وہ ضرور ان ا صلاحات کی حمایت کریں گے۔ اور اگر نہیں بھی کرتے تو ان کے بقول اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

یہ اصلاحات خواتین کے لئے کتنی مؤثر ثابت ہوں گی؟

سمیرا کہتی ہیں کہ سعودی خواتین 2018 میں ڈرائیونگ کر رہی ہوں گی۔ اور مجھے بطور ایک کاروباری خاتون کے اس کا بہت فائدہ ہوگا کیونکہ مجھے اب خواتین کارکنوں کے لئے مرد ڈرائیور نہیں رکھنے پڑیں گے۔ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہو گا اور عوامی تفریح اور غیر ملکی سیاحوں کی سعودی عرب آمد میں اضافہ ہو گا۔

وہ کہتی ہیں کہ سعودی عرب خوشحالی اور ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اور سعودی عوام اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG