رسائی کے لنکس

جدہ میں امریکی قونصل خانے کے قریب حملہ کرنے والا پاکستانی نہیں بھارتی تھا


A boy sits on a chair amid sculptures on display at a shopping center, on International Children's Day, in Beijing. China announced it would allow couples to have three children.
A boy sits on a chair amid sculptures on display at a shopping center, on International Children's Day, in Beijing. China announced it would allow couples to have three children.

حکومت کے اہلکاروں نے کہا ہے کہ 2016 میں سعودی عرب کے جدہ میں امریکی قونصل خانے کے قریب خود کو بم سے اڑا دینے والا خود کش بمبار پاکستانی نہیں بلکہ بھارتی تھا اور اس کا نام فیاض کاغذی تھا۔ وہ مہاراشٹر کے بیڈ کا باشندہ تھا اور اہلکاروں کے مطابق اس کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا۔

حملہ آور کی شناخت اُس ڈی این اے نمونے سے ہوئی ہے جو بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی، این آئی اے نے دونوں ملکوں کے مابین بڑھتے ہوئے دہشت گردی مخالف تعاون کے تحت سعودی عرب بھیجا تھا۔

ایک اہلکار نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی انتظامیہ نے اس کی تصدیق کی ہے کہ ہم نے کاغذی کا جو نمونہ بھیجا تھا وہ حملہ آور سے میل کھا گیا ہے۔

این آئی اے نے دہلی کی ایک عدالت کو مطلع کیا ہے کہ متعدد معاملات میں مطلوب فیاض کاغذی کی موت ہو چکی ہے۔

تحقیقات کاروں کا خیال ہے کہ کاغذی 2010 میں پونے کی جرمن بیکری اور 2012 میں جے ایم روڈ پر ہونے والے بم دھماکوں کا سرغنہ اور رقوم فراہم کیا کرتا تھا۔

سعودی اہلکاروں نے جدہ دھماکے کے بعد کہا تھا کہ حملہ آور عبد اللہ قلزار خان ہے اور وہ پاکستان کا باشندہ ہے۔ انھوں نے اس کی ایک تصویر بھی جاری کی تھی۔ جب اس پر مہاراشٹر اے ٹی ایس کے اہلکاروں کی نظر پڑی تو انھوں نے اسے کاغذی کے طور پر شناخت کر لیا۔ انھوں نے سعودی اہلکاروں سے رابطہ قائم کیا اور ڈی این اے کا نمونہ بھیجا۔

ذرائع کے مطابق کاغذی 2006 میں بنگلہ دیش ہوتے ہوئے پاکستان چلا گیا تھا۔ اسی نے ممبئی کے حملہ آوروں کو ہندی سکھائی تھی۔ اس نے لشکر طیبہ کے لیے بھارتی کارکن بھرتی کرنے کے لیے سعودی عرب میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا تھا۔

یوم مزدور پر متعدد پروگراموں کا انعقاد

عالمی یوم مزدور پر دہلی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں مزدور تنظیموں کی جانب سے متعدد پروگراموں کا انعقاد کیا گیا اور مزدوروں کے حالات بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے کا حکومت سے مطالبہ کیا گیا۔

اس موقع پر دہلی میں منعقدہ ایک پروگرام کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے وزیر محنت سنتوش گنگوار نے کہا کہ ایک پارلیمانی قائمہ کمیٹی نے پہلے ”لیبر کوڈ ویج کوڈ بل 2017“ کی رپورٹ تیار کر لی ہے اور رپورٹ پیش ہونے کے بعد اسے قانون کی شکل میں منظور کرانے کے لیے پارلیمنٹ کے بارانی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ اس قانون کے منظور ہو جانے کے بعد مرکزی حکومت ملک کے مختلف علاقوں میں کم سے کم مزدوری طے کرنے کی مجاز ہو جائے گی۔ اس کے بعد ریاستی حکومتیں مرکز کی جانب سے طے کردہ مزدوری سے کم مزدوری طے نہیں کر سکیں گی۔

متعدد سیاسی جماعتوں نے اس موقع پر مزدوروں کی خدمات یاد کیں اور ان کی زندگی بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔

صدر رام ناتھ کووند نے کہا کہ خود کو وقف کر دینے والے لا تعداد مزدور نئے بھارت کی تعمیر کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ حقیقی معمار قوم ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ وہ آج کے دن کو مزدوروں کے نام وقف کر دینا چاہتے ہیں۔ وزیر مالیات ارون جیٹلی اور کانگریس پارٹی نے بھی مزدوروں کی خدمات کو یاد کیا اور انھیں خراج تحسین پیش کیا۔

لیکن مزدوروں کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک اس دن کی کوئی اہمیت نہیں۔ دہلی، ممبئی، سورت، لکھنو، کانپور اور دیگر شہروں کے مزدوروں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی سخت ہے اور انھیں کام کی بہت کم مزدوری ملتی ہے۔

کانپور کے مزدوروں نے کہا کہ شہر کی بہت سی صنعتیں ٹھپ پڑ گئی ہیں۔ فیکٹریوں میں کام نہیں ہے۔ انھیں نہ تو وقت پر تنخواہ ملتی ہے اور نہ ہی مزدوری۔

گجرات، مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں کے مزدوروں نے بھی انھی خیالات کا اظہار کیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG