رسائی کے لنکس

سعودی صحافی خشوگی کی گمشدگی بدستور ایک معمہ


استنبول میں لاپتا ہونے والے سعودی صحافی جمال خشوگی (فائل)
استنبول میں لاپتا ہونے والے سعودی صحافی جمال خشوگی (فائل)

ترکی کے ایک نشریاتی ادارے نے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی ہے جس میں سعودی حکومت کے سابق مشیر اور معروف کالم نگار جمال خشوگی کے لاپتا ہونے کے حوالے سے مبینہ سعودی انٹیلی جنس اہلکاروں کو ایک خصوصی سعودی جہاز کے ذریعے ترکی آتے اور پھر واپس جاتے دکھایا گیا ہے، جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ جمال خشوگی کی گمشدگی میں سعودی قونصل خانے کا کوئی کردار ہے۔

سی سی فوٹیج سے لی گئی اس تصویر میں خشوگی سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں
سی سی فوٹیج سے لی گئی اس تصویر میں خشوگی سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں

جمال خشوگی کے ترکی کے شہر استنبول میں موجود سعودی قونصل خانے میں جانے کے ایک ہفتے بعد بھی اُن کی گمشدگی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ وہ اپنی ترک منگیتر سے شادی کرنے سے قبل سابقہ بیوی کو طلاق دینے سے متعلق دستاویزات مکمل کرنے کیلئے سعودی قونصل خانے گئے تھے۔ اُن کا سیل فون اُن کی ترک منگیتر کے پاس تھا اور وہ قونصل خانے کے باہر انتظار کر رہی تھیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے 11 گھنٹے تک خشوگی کا انتظار کیا اور جب وہ باہر نہیں آئے تو وہ واپس لوٹ گئیں۔

کلوزڈ سرکٹ کیمروں سے دیکھا جا سکتا ہے کہ خشوگی قونصل خانے کے اندر داخل ہوئے تھے۔ تاہم، اُن کے باہر نکلنے کی کوئی ریکارڈنگ موجود نہیں ہے۔ سعودی حکومت اس بات کی تردید کرتی ہے کہ اُن کی گمشدگی میں اُس کا کوئی ہاتھ تھا۔

اس تصویر میں مبینہ سعودی انٹیلی جنس اہلکار استنبول ہوائی اڈے سے باہر آ رہے ہیں
اس تصویر میں مبینہ سعودی انٹیلی جنس اہلکار استنبول ہوائی اڈے سے باہر آ رہے ہیں

امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے سعودی عرب سے کہا ہے کہ وہ جمال خشوگی کی پراسرار گمشدگی کے بارے میں جامع اور شفاف تحقیقات کیلئے مکمل تعاون فراہم کرے۔ خشوگی امریکہ کی ریاست ورجینیا کے رہائشی ہیں اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار ہیں۔

واشنگٹن میں منگل کے روز منعقد ہونے والے فورم ’نیو فیس آف سعودی عرب‘ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ خشوگی فورم کے پینل میں شامل تھے۔

فارن پالیسی کی تجزیہ کار رولا جبریل نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس رپورٹ کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ خشوگی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے کے اندر ہلاک کیا گیا تھا تو امریکہ کو چاہئیے کہ وہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کر دے اور اُس کے ساتھ تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے۔

رولا جبریل نے ترکی کی پولیس کا مؤقف بیان کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کے بقول، اُنہیں قتل کر کے اُن کی لاش کی بے حرمتی کی گئی۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ قونصل خانے سے کچھ ڈبے باہر نکالے گئے اور پولیس کو شبہ ہے کہ اُن ڈبوں میں خشوگی کی لاش تھی۔ رولا جبریل نے کہا کہ اگرچہ ترکی کی پولیس دعویٰ کرتی ہے کہ خشوگی کو قتل کر دیا گیا تھا، تاہم اُس کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

امریکہ نے اس بارے میں محتاط رد عمل کا مظاہرہ کیا۔ امریکی محکمہٴ خارجہ کی ترجمان ہیدر نیوئٹ نے کہا ہے کہ وزیر خارجہ سے لیکر نیچے تک تمام لوگ اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ سعودی قیادت سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لہذا، وہ اُس بات چیت کے حوالے سے فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں اس بارے میں تشویش ہے۔ تاہم، خشوگی کے بارے میں بہت بری خبریں گردش کر رہی ہیں اور اُنہیں یہ سب اچھا نہیں لگ رہا ہے۔

رولا جبریل کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس بات پر سخت غصے میں تھے کہ خشوگی کو اپنے تنقیدی کالموں کیلئے ’واشنگٹن پوسٹ‘ جیسا نمایاں پلیٹ فارم میسر تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر اُن کے قتل کی خبریں درست ثابت ہوتی ہیں تو مغربی ممالک کو سعودی تیل خریدنا بند کر دینا چاہئیے اور سعوی ولی عہد اور دیگر سعودی حکمرانوں کے اثاثے منجمد کر دینے چاہئیں۔

صدر ٹرمپ نے مئی 2017 میں پہلی بار سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جو سعودی عرب کے ساتھ طویل عرصے سے جاری اقتصادی اور سفارتی تعلقات کی روایت کا ایک تسلسل تھا۔

ادھر، عالمی میڈیا سے متعلق امریکی ادارے، ’یو ایس اے جی ایم‘ کے چیف اگزیکٹو افسر اور ڈائریکٹر، جان ایف لینسنگ نے سعودی صحافی اور ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے کالم نگار، جمال خشوگی کے اچانک لاپتا ہو جانے پر شدید اظہار تشویش کیا ہے۔

اپنے پیغام میں اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’بدقسمتی سے یہ واقعہ پریس کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات کے عالمی رویے کا ایک حصہ ہے۔ دنیا بھر کے صحافی، جن میں ’یو ایس اے جی ایم‘ کے پانچ نیٹ ورک۔ وائس آف امریکہ، ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی، آفس آف کیوبا براڈکاسٹنگ، ریڈیو فری ایشیا اور مڈل ایسٹ براڈکاسٹنگ نیٹ ورکس بھی شامل ہیں۔۔ محض سچ کے اظہار پر مبنی خبریں جاری کرنے پر آئے دِن اُن کی زندگیوں اور روزگار کو خطرہ لاحق رہتا ہے‘‘۔

جان لینسنگ نے کہا کہ ’’دنیا بھر کی بدعنوان اور جابر حکومتوں کا یہ عام شیوہ ہے کہ وہ اطلاعات کو کنٹرول کرنے اور آزادی ابلاغ کو دبانے کی خواہش پر عمل پیرا رہتی ہیں۔ اسی لیے، وہ آزاد صحافیوں سے خوفزدہ رہتے ہیں اور اکثر اُن کے ناگزیر کام کو ناجائز قرار دیتے ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’کسی کو بھی، خاص طور پر حکومتوں کو، صحافیوں کو خاموش کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے‘‘۔

لینسنگ نے کہا کہ ’’خشوگی کی طرح، ’یو ایس اے جی ایم‘ سمجھتا ہے کہ باخبر دنیا محفوظ دنیا کی نوید ہوا کرتی ہے، جب کہ یہ جمہوریت کی نشو و نما کے لیے شرط اول کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔

XS
SM
MD
LG