رسائی کے لنکس

پاکستان اور آئی ایم ایف میں اختلاف نہیں، ٹیکس کی شرح بڑھانی ہو گی: گورنر اسٹیٹ بینک


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مالی اعانت کے پروگرام کی بحالی کے لیے بات چیت جاری ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' دیے گئےانٹرویو کے دوران گورنر رضا باقر نے کہا کہ حکومت بہت جلد دنیا کو آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی سے متعلق اچھی خبر دے گی۔

انہوں نے​ توقع ظاہر کی کہ کرونا وائرس کے منفی اثرات کے باوجود پاکستان کی معیشت کی بہتری کی امید ہے۔​

پاکستان نے زر مبادلہ کے غیر ملکی ذخائر اور اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لیے 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ تین سال کے لیے چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کا معاہدہ کیا تھا۔ گزشتہ برس وبا پھوٹنے کے بعد اس پروگرام کے تحت پاکستان کا دوسرے اقتصادی جائزے کا معاملہ اب تک زیرِ التوا ہے۔ البتہ آئی ایم ایف نے کرونا وائرس کی وجہ سے معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ایک ارب 40 کروڑ ڈالرز فراہم کیے تھے جو آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصہ نہیں ہے۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے انٹرویو کے دوران کہا کہ ہم دنیا اور مارکیٹ کے لیے ایک اچھی خبر کی توقع رکھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پروگرام دوبارہ بحال ہو رہا ہے۔

آئی ایم ایف سے 2019 میں طے پانے والے پروگرام کے تحت پاکستان کا معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور ٹیکس محصولات میں اضافے کے لیے دور رس اصلاحات وضع کرنی تھی لیکن وبا کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

رضا باقر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ پاکستان کو مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس کی شرح بڑھانی ہو گی۔ جو کافی کم ہے۔

ان کے بقول آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اس بات پر رہے کہ اقتصادی اصلاحات کے لیے کون سا وقت موزوں ہو گا۔ کیوں کہ اس طرف پیش رفت کرنے کے نتیجے میں معیشت سکڑ سکتی ہے اور عام لوگوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہے۔ جو کرونا وائرس کی وجہ سے روزگار ختم ہونے اور مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی مشکل میں ہیں۔

'آئی ایم ایف سے وعدے پورا کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:32 0:00

اقتصادی امور کے ماہر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام کے تحت پاکستان کا اپنے اقتصادی ڈھانچے میں اگرچہ دور رس اصلاحات وضع کرنا ضروری ہیں۔ لیکن وائرس کی وجہ سے اصلاحات کے ایجنڈا زیرِ التوا ہے۔

ان کے بقول جب تک وبا جاری رہتی ہے اس وقت تک پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ وہ عالمی مالیاتی ادارے کی سخت شرائط پر عمل کر سکے۔

ان کے بقول پاکستان کے گورنر اسٹیٹ بینک کا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان کا اگر آئی ایم ایف کے تجویز کردہ اصلاحاتی پروگرام پر عمل کرنے کی رفتار کچھ مدہم بھی ہو تو شاید عالمی مالیاتی ادارہ اپنے پروگرام کو بحال کر سکتا ہے۔

عابد سلہری کے بقول کرونا وبا کے پیشِ نظر آئی ایم ایف آئندہ چھ ماہ کے دوران پاکستان سے اپنی تمام شرائط پوری کرنے پر شاید اصرار نہ کرے۔

ان کے بقول حکومت سرکاری سرپرستی میں چلنے وہ اداروں کے خسارے کو اگرچہ کم کرنے کے اصلاحات کے پروگرام کو جاری رکھ سکتی ہے۔ لیکن ایسے اقدامات شاید ممکن نہ ہوں۔ کیوں کہ اس سے عام لوگوں کی معاشی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

اقتصادی امور کیے تجزیہ کار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مستقبل میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس صورتِ حال میں پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کی جلد بحالی کا خواہش مند ہو گا۔

فرخ سلیم کے خیال میں پاکستان کو بیرونی ادائیگی کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے حکومت شاید ڈیڑھ سے دو ارب ڈالرز کے بانڈز جاری کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ اس صورت ممکن ہو گا جب آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہو۔

پاکستان کے سالانہ بجٹ کا 37 فیصد قرضے اتارنے پر خرچ ہوتا ہے
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:29 0:00

گزشتہ مالی سال 20-2019 کے دوران پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کے شرح نمو منفی 0.4 فی صد رہی تھی۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کہتے ہیں کہ اس کے باوجود کہ پاکستان کو وبا کی دوسری لہر کا سامنا ہے، وہ معیشت کی بہتری کے لیے پُر امید ہیں۔

ان کے بقول پاکستان سامنے آنے والی مشکلات کے لیے تیار ہے۔ اس وقت بغیر کسی ویکسین کے کرونا وائرس کا سامنا کیا جا رہا ہے۔ جب ویکسین ملک میں آ جائے گی تو صورتِ حال بہتر ہو جائے گی۔ اس وقت ملکی معیشت بہتری کی راہ پر گامزن ہے۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا کہ آئندہ دو سے تین سال ملکی معیشت کے لیے بہتر ہوں گے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں سات ارب ڈالرز سے 13 ارب ڈالرز تک ہونے والا اضافہ کسی قرضے سے نہیں ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG