رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف سے قرض کی کوشش؛ شرح سود میں ڈیڑھ فی صد اضافے کا اعلان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں سیاسی بے یقینی اور مخدوش معاشی حالات میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کی نئی قسط کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل قطر روانہ ہوگئے ہیں۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں وزیرِ خزانہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے وفد کی رہنمائی کریں گے۔

دوحہ روانگی سے قبل وفاقی وزیرِ خزانہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ چند روز میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اےا ی) کی جانب سے بھی اسلام آباد کو قرضوں کی ری شیڈولنگ ممکن ہو جائے گی۔

ان حالات میں وزیرِ خزانہ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانےکی تجویز کو مسترد کر دیا گیا ہے کیوں کہ اس وقت قوم یہ بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ حال ہی میں نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی معیشت جو 5.97 فی صد کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ جب کہ آئی ایم ایف کے مطابق اس تیزی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو جاری کھاتوں کے خسارے کا سامنا ہے۔ اسے قابو میں لانے کے لیے شرح سود بڑھانی پڑے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی تاریخ کی بڑی درآمدات، 20 ہزار ارب روپے کا نیا قرض، جب کہ ملک کی تاریخ کا بڑا بجٹ خسارہ بھی ان کی حکومت کو ورثے میں ملا ہے جب کہ زرعی لحاظ سے پیداوار کم اور ملک میں ایندھن کے بحران کی وجہ سے صنعتوں کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔

پاکستان: کئی اشیا کی درآمد پر پابندی، معیشت پر فرق کیا پڑے گا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:12 0:00

ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ ملک میں شرح سود بڑھانے کی وجوہات مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہونا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح اپریل میں 13.37 فی صد رہی جو گزشتہ سال اسی ماہ میں 11.10 فی صد تھی جب کہ رواں سال مارچ میں بھی مہنگائی کی شرح 12.71 فی صد رہی تھی۔

اسٹیٹ بینک کا شرح سود ڈیڑھ فی صد بڑھانے کا فیصلہ

اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے پیر کو ہونے والے اجلاس میں ملک میں پالیسی ریٹ کو 150 بیسز پوائنٹس بڑھا کر نئی شرح سود 13.75 فی صد کرنے کا فیصلہ کیاہے۔

کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ملک میں طلب کو معتدل کرنے، مہنگائی کو قابو میں رکھنے اور بیرونی استحکام کو درپیش خطرات کی روک تھام کرنے میں مدد کے لیے ضروری تھے۔

زری پالیسی کمیٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں معیشت کی شرح نمو توقع سے کہیں زیادہ ہے، جب کہ عالمی سطح پر روس یوکرین تنازعے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ چین میں بھی کرونا وائرس کی نئی لہر کے سبب پھر سے رسد کا تعطل پیدا ہوا ہے۔ نتیجے کے طور پر دنیا کے تقریباً تمام مرکزی بینکوں کو اچانک کئی سال پر محیط بلند مہنگائی اور دشوار منظرنامے کا سامنا ہے۔

ملک میں شرح سود میں اضافے کے حوالے سے ماہرِ معاشیات شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ معاشیات کے اصول کے تحت مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مہنگائی کی شرح کے برابر ہی شرح سود کو بڑھانا پڑتا ہے اور اس لیے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے پاس شرح سود بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان کے بقول اس کا عندیہ وزیر خزانہ دے چکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ملک کی معیشت اور اسٹاک مارکیٹ دونوں ہی کے لیے انتہائی منفی ثابت ہوگا کیوں کہ شرح سود انتہائی زیادہ ہونے کی وجہ سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں پہلے ہی ماند پڑی ہوئی ہیں جب کہ دوسری جانب حکومت کے مقامی بینکوں سے لیے گئے قرضوں پر سود کی اضافی ادائیگی کرنی ہوگی۔

آئی ایم ایف سے مذاکرات میں تعطل

شہریار بٹ کے خیال میں آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات میں تعطل آیا ہے۔ یہ تعطل تیل کی قیمتوں پر حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی ہی ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف قرض کی نئی قسط جاری نہیں کر رہا۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے مطالبے پر حکومت کی ہچکچاہٹ کی وجہ اس فیصلے کے سیاسی اثرات ہیں، جس کی وجہ سے حکومت یہ فیصلہ لینے کو تیار نہیں۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں: حکومت مخمصے میں، معیشت مشکل میں
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:18 0:00

کئی معاشی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ شرح سود بڑھانے کا فیصلہ مالیاتی فنڈ ہی کی تجویز پر کیا گیا ہے اور اس بات کی بھی توقع ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کو پیٹرول کی قیمتوں میں دی گئی سبسڈی کو آہستہ آہستہ ختم کرنے پر راضی کرلے گی۔

دوسری جانب اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل مندی کے رحجان کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مسلسل گیارویں روز بھی گراوٹ کا شکار رہا اور انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 80 پیسے اضافے کے ساتھ 200 روپے 94 پیسے پر بند ہوئی۔

ملک میں نئی حکومت کے قیام کے محض 42 روز میں روپے کی قدر میں 18 روپے سے زائد یعنی 10 فی صد کی کمی ریکارڈ کی جاچکی ہے جس سے ماہرین معیشت کے خیال میں پاکستان پر دو ہزار ارب روپے سے زائد قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین معیشت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں عالمی مارکیٹ سے سستے تیل کی بڑھتی ہوئی کھپت کو کم کرنے کے لیے ہفتہ وار چھٹیوں کی تعداد کو بڑھانا ہوگا جو موجودہ حکومت نے گزشتہ ماہ برسرِ اقتدار آنے پر دو سے کم کرکے ایک کردی تھی۔

اس معاملے پر حتمی فیصلہ منگل کو کابینہ کے اجلاس میں متوقع ہے جب کہ اس کے علاوہ ایندھن کی بچت کے لیے کاروباری اوقات کم کرنے سمیت کئی مشکل فیصلے بھی کرنے ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG