رسائی کے لنکس

شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ غیر قانونی قرار؛ سابق جج کو کیوں ہٹایا گیا تھا؟


  • جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار
  • جسٹس شوکت عزیز ریٹائر تصور کیے جائیں: عدالتی حکم
  • جسٹس شوکت صدیقی ریٹائرڈ جج کی تمام مراعات اور پینشن کے اہل ہیں: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے صدر کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا جاری کردہ نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا۔

شوکت عزیز صدیقی کو اکتوبر 2018 میں ججز کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر عہدے سے برطرف کیا گیا تھا۔

شوکت عزیز صدیقی نے 2018 میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن میں اپنے خطاب میں خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) اور اس کے سربراہ پر الزامات عائد کیے تھے۔

شوکت صدیقی نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے افسران عدالتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اپنے من پسند فیصلوں کے لیے بینچ تشکیل دینے کے معاملات میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔

شوکت صدیقی نے جنرل فیض حمید سے ملاقات کا بھی انکشاف کیا تھا جس میں اُن کے بقول جنرل فیض حمید نے کہا تھا کہ 2018 کے انتخابات سے قبل نواز شریف اور اُن کی بیٹی کی ضمانت منظور نہ کی جائے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بدقسمتی سے فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے 23 صفحات کا فیصلہ تحریر کیا جس کے مطابق شوکت عزیز صدیقی بطور ریٹائرڈ جج پینشن سمیت تمام مراعات کے حق دار قرار پائیں گے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 23 جنوری کو شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

فیصلے کے مطابق جسٹس شوکت صدیقی کو بطور جج بحال نہیں کیا جا سکتا، انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جسٹس شوکت صدیقی ریٹائرڈ جج کی تمام مراعات اور پینشن کے اہل ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ردِعمل

وائس آف امریکہ سے اس فیصلے کے بعد ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اس سے حق کی فتح ہوئی ہے جس پر وہ اللہ کے شکر گزار ہیں جس نے انہیں سرخرو کیا۔

اس سوال پر کہ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو کالعدم قرار دیا گیا ہے لیکن کیس کے میرٹس پر بات نہیں ہوئی تو کیا وہ اس بارے میں نظرثانی دائر کریں گے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ہم اپنے مؤقف پر پہلے دن سے قائم ہیں اور عدالت میں بھی ہم نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اس بارے میں انکوائری کروا لی جائے۔ لیکن عدالت نے انکوائری نہیں کروائی۔

اُن کے بقول اب عدالت نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے تو اس بارے میں اپنے وکیل حامد خان سے مشاورت کے بعد ہم فیصلہ کریں گے کہ ہم نے اس بارے میں نظرثانی درخواست دائر کرنی ہے یا نہیں۔

شوکت عزیز صدیقی برطرف کیوں ہوئے؟

پاکستان کی سپریم جوڈیشل کونسل نے 2018 میں شوکت عزیز صدیقی کو بطور جج اسلام آباد ہائی کورٹ برطرف کر دیا تھا۔

ان کے خلاف اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے کا ریفرنس دائر ہوا تھا۔

وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں انہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے ساتھ ملاقاتوں کے بارے میں بتایا کہ جنرل فیض سے ان کی دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔

ان کے بقول، "میں جب سرکاری رہائش گاہ میں رہ رہا تھا تو وہ میرے گھر آئے تھے، اس وقت جتنے بھی معاملات چل رہے تھے ان میں ہمارے ادارے کے بڑے اور فوج کے بڑے اس وقت یک جان دو قالب بنے ہوئے تھے۔ لہذا اس وقت میں نے جو کچھ کہا اس پر میری کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔"

'پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:02 0:00

شوکت عزیز صدیقی کے مطابق انہوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس انور کاسی سے جب بات کی تو انہوں نے کہا کہ "جو وہ کہتے ہیں کرتے جائیں، چھوڑیں ان کے ساتھ (اختلاف کرنا) مناسب نہیں۔"

شوکت صدیقی نے کہا کہ جنرل فیض سے ہونے والی ملاقات کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کے نتیجے میں ان کے اپنے چیف جسٹس سے سنجیدہ نوعیت کے اختلافات ہو گئے تھے۔

جنرل فیض کے ساتھ ملاقاتوں کے حوالے سے اس سوال پر کہ کسی جج کا ڈی جی آئی ایس آئی سے ملنا ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں؟ شوکت عزیز صدیقی نے کہا تھا کہ اگر وہ مجھ سے کسی کیس کے حوالے سے ملنے کا کہہ کر آتے تو یقیناً یہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی تھا لیکن آنے سے پہلے انہوں نے کسی کیس کا ذکر نہیں کیا تھا۔

سابق جج کے مطابق انہوں نے اسلام آباد میں تمام تجاوزات ختم کرنے کا ایک حکم جاری کیا تھا جس کی زد میں آئی ایس آئی کے دفتر کے قریب سڑک بھی آئی تھی جسے طویل عرصے سے سیکیورٹی کے نام پر بند کر رکھا تھا۔

ان کے بقول "اس وقت کے سیکٹر کمانڈر انہیں عمرہ کی مبارک باد دینے کا کہہ کر ان کے پاس آئے اور باتوں باتوں میں انہوں نے تجاوزات کیس کا حکم واپس لینے کا کہا۔ میں اس وقت عمرہ سے واپسی کے بعد ایک مخصوص کیفیت میں تھا جس کی وجہ سے میں نے صرف اتنا کہا کہ آپ فی الحال چلے جائیں، بجائے اس کے کہ میں آپ کے خلاف کوئی کارروائی کروں۔"

شوکت صدیقی نے کہا کہ آئی ایس آئی افسر کی جانب سے زیادتی کے بعد جنرل فیض حمید نے کہا کہ وہ اپنے ماتحت کی بدتمیزی پر معذرت کے لیے آنا چاہتے ہیں۔ جس پر انہیں آنے کی اجازت دی لیکن جنرل فیض نے ملاقات کے دوران وہ گفتگو کی جو ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔

فورم

XS
SM
MD
LG