رسائی کے لنکس

اتر پردیش میں ہجوم کے ہاتھوں ایک اور پولیس اہلکار ہلاک


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اترپردیش کے علاقے غازی پور میں مشتعل ہجوم کی جانب سے ہونے والے پتھراؤ کے نتیجے میں پولیس کانسٹبل کی موت ہو گئی۔ ریاست میں ایک ماہ کے درمیان ہجوم کے ہاتھوں یہ دوسرے پولیس اہلکار کی موت ہے۔

3 دسمبر کو بلند شہر میں مبینہ گئو کشی کے خلاف احتجاج کے دوران ایک پولیس انسپکٹر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان واقعات کی روشنی میں ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں۔

ہفتے کے روز غازی پور ضلع میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ریلی تھی۔ ان کے خطاب کے بعد وہاں تعینات پولیس اہلکار واپس جا رہے تھے کہ کنٹرول روم سے اطلاع ملی کہ جلسہ گاہ سے چند کلومیٹر کی مسافت پر نشاد برادری کے لوگ جو پسماندہ سمجھے جاتے ہیں، ہائی وے جام کیے ہوئے ہیں۔

پولیس کے مطابق وہ اپنے بعض گرفتار ساتھیوں کی رہائی اور سرکاری ملازمتوں میں اپنے لیے نشستیں مخصوص کیے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ایک پولیس اہلکار نے جو واقعے کا چشم دید گواہ ہے میڈیا کو بتایا کہ ہم لوگوں نے مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی مگر انھوں نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ پتھراؤ سے تین پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ سریش وتس نامی ایک کانسٹبل کو زیادہ چوٹیں آئیں۔ اسے اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔

پولیس نے 32افراد کے خلاف نامزد اور 60 گمنام افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ان میں چند افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں۔

بلند شہر واقعہ کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گائے ذبح کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی تھی اور انسپکٹر کی موت کو حادثہ قرار دیا تھا۔

انھوں نے غازی پور واقعہ میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار کے لواحقین کو چالیس لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔

ایک سینئر تجزیہ کار اور نیوز پورٹل دی وائر کے ایڈیٹر سدھارتھ وردا راجن ریاست میں نظم و نسق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتےہوئے کہتے ہیں ’’وہاں ایک فرقہ پرست پارٹی برسراقتدار ہے۔ اس سے وابستہ لوگوں کو کچھ بھی کرنے کی پوری آزادی ہے۔ یہاں تک کہ پولیس والے بھی محفوظ نہیں ۔ ریاست میں نظم و نسق کے بارے میں وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم دونوں سے سوال پوچھے جانے چاہئیں۔‘‘

نشاد پارٹی کے صدر سنجے نشاد نے پولیس کے اس بیان کی تردید کی ہے کہ نشاد برادری کے لوگوں نے پتھراؤ کیا۔ ان کا الزام ہے کہ بی جے پی والوں نے نشاد برادری کو بدنام کرنے کے لیے یہ حرکت کی ہے۔

ہلاک ہونے والے کانسٹیبل کے بیٹے وی پی سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’ جب پولیس والے ہی اپنے ساتھیوں کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ان سے عام لوگوں کے تحفظ کی توقع بے معنی ہے ۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارا توگھر ہی تباہ ہو گیا ہم معاوضہ لے کر کیا کریں گے۔

چند روز قبل 83 سابق اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد نے حکومت کے نام ایک خط کے ذریعے ریاست میں نظم و نسق کی صورت حال پر تشویش ظاہر کی تھی اور وزیر اعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا الزام ہے کہ ریاست میں حکمرانی کے بنیادی اصول، آئینی اخلاقیات اور انسانی سماجی برتاؤ کی شکل بگڑ گئی ہے۔

ریاست کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل آنند کمار اس الزام کی تردید کرتے ہیں اور مذکورہ وقعات کی روشنی میں آئینی اقدار کے خاتمے کے الزام کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG