رسائی کے لنکس

پاکستان میں ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنی 'گلیکسو' کے افسران کو سزائیں کیوں ہوئیں؟


  • ڈرگ کورٹ نے کمپنی کی سی ای او، پروڈکشن مینیجر، کوالٹی کنٹرول انچارج اور وارنٹر کو سزائیں سنائیں اور جرمانہ عائد کیا۔
  • جی ایس کے دنیا بھر میں ادویات بنانے والی ایک بڑی کمپنی ہے اور پاکستان میں بھی اس کا شمار بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیز میں ہوتا ہے۔
  • عدالتی فیصلے کو اپیلیٹ فورم کے سامنے چیلنج کرنے کے لیے فوری اقدامات کر رہے ہیں: جی ایس کے

راولپنڈی کی ایک عدالت نے پاکستان میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی 'گلیکسو اسمتھ کلائین' (جی ایس کے) کی ایک دوا 'غیر معیاری' پائے جانے پر کمپنی کی سی ای او سمیت اعلیٰ عہدے داروں کو سزا سناتے ہوئے جرمانہ عائد کر دیا ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرے گی۔

واضح رہے کہ گلیکسو اسمتھ کلائین دنیا بھر میں ادویات بنانے والی ایک بڑی کمپنی ہے اور پاکستان میں بھی بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔

راولپنڈی کی ڈرگ کورٹ کے چیئرمین جج ندیم بابر خان نے کیس کے پیر کو جاری کردہ فیصلے میں کمپنی کی سی ای او ارم شاکر، پروڈکشن مینیجر ثاقب عظمت، کوالٹی کنٹرول انچارج خرم رفیق اور ایک وارنٹر ہارون الرشید کو گرفتاری، قید اور جرمانے کی سزائیں سنائیں۔

عدالت نے سی ای او کو عدالت کا وقت ختم ہونے تک قید میں رکھنے اور ارم شاکر اور کمپنی کو مجموعی طور پر 47 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

فیصلے کے مطابق پروڈکشن مینیجر، کوالٹی کنٹرول انچارج اور وارنٹر کو الگ الگ دفعات کے تحت مجموعی طور پر دو، دو سال قید اور چھ لاکھ روپے جرمانے تک کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان افراد کو گرفتار کرکے جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

جی ایس کے نے اس معاملے پر پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو ایک خط لکھا ہے جس میں کمپنی کا کہنا ہے گلیکسو اسمتھ اور کارروائی میں ملوث افسران نے اس معاملے میں کسی بھی قسم کا کوئی غلط کام نہیں کیا۔ کمپنی اس فیصلے کو اپیلیٹ فورم کے سامنے چیلنج کرنے کے لیے فوری اقدامات کر رہی ہے۔

کیس کیا ہے؟

عدالتی فیصلے کے مطابق صوبائی انسپکٹر آف ڈرگز تحصیل حسن ابدال عمر زیب عباسی کی جانب سے ایک شکایت دائر کی گئی تھی۔ اس شکایت کے مطابق سال 2018 میں عظمیٰ خالد نامی ایک اور ڈرگ انسپکٹر نے جی ایس کے کی تیار کردہ 'سیپٹران' نامی دوا (بیچ نمبر ایچ ایس ڈی بی ڈی ) کا نمونہ لیا۔

بعد ازاں اس نمونے کو راولپنڈی کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کو بھیجا جس میں یہ دوا "غیر معیاری" پائی گئی۔

سپٹران اینٹی بائیوٹک دوا ہے جو مختلف قسم کے بیکٹیریل انفیکشن جیسے نمونیا، برونکائٹس، پیشاب کی نالی، کان اور پیٹ کے انفیکشن کے علاج کے لیے ہے۔

لیب رپورٹ کے مطابق دوا سپٹران کی گولیاں اس وجہ سے غیر معیاری قرار دی گئیں کہ ان کے حل ہونے یا ڈیزولوشن ٹائم مختلف تھا۔

رپورٹ کے مطابق ٹیسٹنگ کے دوران دوا کے گھلنے کی مدت درست نہیں تھی۔ دوا حل ہونے میں زیادہ وقت لے رہی تھی۔

عدالت نے ٹیسٹنگ لیب کی رپورٹ کی بنیاد پر ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں۔

'فیصلہ قانون سے تجاوز ہے'

پاکستان فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے وائس پریزیڈنٹ عمیر اکرام ڈار کے مطابق سیپٹران دوا سے متعلق جو فیصلہ آیا ہے وہ ہمارے خیال میں قانون سے تجاوز ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دوا کے حل ہونے میں اگر دیر لگتی ہے تو اس سے مریض کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسے کسی خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بعض تکنیکی امور کی وجہ سے دوا کے حل ہونے میں وقت لگ جاتا ہے لیکن اس معاملہ پر اتنی سخت سزا دینا پاکستان میں ادویات سے متعلق بحران کو مزید بڑھا دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ چند سال قبل تک ملک میں 20 سے زیادہ بین الاقوامی کمپنیاں کام کر رہی تھیں۔ لیکن اب صرف چار یا پانچ کمپنیاں رہ گئی ہیں اور وہ بھی مشکل صورتِ حال کی وجہ سے پاکستان میں اپنا کام ختم کر رہی ہیں۔

عمیر اکرام ڈار نے کہا کہ ایسے میں ان کمپنیوں کے افسران کو اس طرح سزائیں سنانا اور عدالت کے اندر گرفتار کرنے سے ملک میں ادویات کی صنعت بحران کا شکار ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اس دوا کا ایپلٹ ٹیسٹ نہیں ہوا۔ صرف ایک لیب کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ سزا دی گئی ہے۔

ان کے بقول کیس میں کمپنی کی طرف سے جو رویہ دیکھنے میں آیا وہ درست نہیں تھا جس میں عدالت میں درست انداز میں پیش نہ ہونا اور معاملات میں تاخیر کرنا شامل ہے۔

لیکن ان کا کہنا تھا کہ دوا کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو دوا غلط نہ تھی۔ صرف اس کے حل ہونے میں کچھ وقت کی تاخیر کا معاملہ تھا۔ اس جرم میں کوئی مالی فائدہ نہیں تھا۔

عمیر اکرام ڈار کے مطابق اصل معاملہ تو جعلی دوائیوں کا ہے۔ لیکن انسانی غلطی کی وجہ سے معمولی غیر معیاری ہونے پر ایسی سزائیں دینا درست نہیں۔ ان کے بقول عدالت اس کیس میں دوا کی پروڈکشن بند کرنے یا مارکیٹ سے تمام دوا واپس بلانے کا بھی کہہ سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور پروڈکشن مینیجرز اور دیگر افسران کو قید کی سزائیں سنا دی گئی جو درست نہیں ہے۔

'اس طرح کی سزا دینا ظلم ہے'

پاکستان فارماسیوٹیکل میوفیکچررز ایسویسی ایشن کے حامد رضا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی سزا دینا ظلم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے پاکستان مخالف فیصلہ سمجھتے ہیں۔ جی ایس کے پاکستان کی ٹاپ فائیو کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ ایسی کمپنی کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ غیر معیاری یا جعلی ادویات بنا رہی ہیں افسوسناک امر ہے۔

حامد رضا کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر یہ ممکن ہے کہ کسی بھی وجہ سے بنائی جانے والی دوا معدے میں جا کر حل ہونے میں کم یا زیادہ وقت لے سکتی ہے۔ لیکن اس سے مریض کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ آج تک پاکستان کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ اس طرح کے معاملے پر اتنی سخت سزا دی گئی ہو۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ان دویات کو غیر معیاری نہیں بلکہ آؤٹ آف اسپیکس کہا جاتا ہے جو کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

حامد رضا کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں میں الگ الگ قوانین ہیں۔ پنجاب میں موجود قانون دوسرے صوبوں میں نہیں ہے۔ قانون ہمیشہ دنیا بھر کے قوانین کا جائزہ لینے کے بعد بنتے ہیں۔ لیکن دنیا میں کہیں ایسا نہیں کہ دوا اگر دیر سے حل ہو رہی ہے تو اس کمپنی کے افراد کو سزا دے دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس دوا میں مسئلہ تھا تو اس کے تمام اسٹاک کو مارکیٹ سے واپس اٹھانے کا حکم دے دینا چاہیے تھا۔ کمپنی کے افسران کو ایسی سزائیں دے کر پاکستان سے جانے کا جواز دیا گیا ہے۔

'ہمیں قانون اور اپنی سمجھ پر نظرثانی کی ضرورت ہے'

اس بارے میں ادویات بنانے والی بین الاقوامی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم کی ترجمان عائشہ حق سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس معاملے کو عدالت میں زیرِ سماعت ہونے کا کہہ کر بات کرنے سے معذرت کرلی۔

ان کا کہنا تھا اس بارے میں عام لوگوں کے پاس بہت کم معلومات ہیں کہ کیا چیز غیر معیاری ہے۔ ہماری جنگ جعلی ادویات کے خلاف ہونی چاہیے جو لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔

عائشہ حق نے کہا کہ جی ایس کے کا معاملہ بہت سنگین مسئلہ ہے اور اس کے سنگین مضمرات ہوں گے کہ دنیا پاکستان کو کس نظر سے دیکھے گی۔ ہمیں اپنی سمجھ اور قوانین دونوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

مذکورہ معاملے پر جی ایس کے سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن کئی بار کوششوں کے باوجود رابطہ نہ ہو سکا۔

فیصلے سے ادویہ سازی کی صنعت میں بہتری آ سکے گی'

صارفین کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'دی نیٹورک فار کنزیومر پروٹیکشن کے ندیم اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان میں صارفین کے تحفظ کے حوالے سے بہت اہم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصلے میں ایک بین الاقوامی کمپنی کی سی ای او اور دیگر اعلیٰ افسران کو نہ صرف سزائیں سنائی گئیں بلکہ ان پر عمل درآمد بھی ہوا ہے۔

ان کے بقول ڈرگ کورٹ کے جج جن کا اسٹیٹس ہائی کورٹ کے جج کے برابر ہے، انہوں نے دو ماہرین کی معاونت میں یہ فیصلہ سنایا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں جا کر یہ فیصلہ واپس بھی ہوسکتا ہے لیکن اس فیصلے سے ملک بھر میں ادویات سازی کی صنعت میں بہتری آ سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب میں سات ڈرگ کورٹس ہیں جو سالانہ ڈھائی ہزار کے قریب کیسز کا فیصلہ کرتی ہیں لیکن یہ کیس اس حوالے سے اہم ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی کمپنی تھی جس کے افسران کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیارات کو دیکھنا ہوگا۔ سزائیں ہونا الگ بات ہے لیکن ایک دوا کے لیے معیارات اور اس پر ہونے والی بحث بہت زیادہ اہم ہے جس سے صارفین کو آگاہی مل سکے گی۔

ندیم اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کام تو کر رہی ہے لیکن ہماری صلاحیت عالمی معیارات کے مطابق نہیں ہے۔ ادویات کی مانیٹرنگ کا نظام مزید سخت ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے مختلف ادویات کی شکایات پر انہیں واپس منگوانے کا بھی کہا ہے جو اہمیت کا حامل ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے احکامات کے علاوہ بعض کمپنیوں نے بھی بعض ادویات کو واپس منگوایا ہے۔ لیکن صارفین کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کا نظام وضع کرنا چاہیے۔

فورم

XS
SM
MD
LG