رسائی کے لنکس

قائمہ کمیٹی کا چیئرمین نیب کے خلاف سینیٹ میں تحریکِ استحقاق لانے کا عندیہ


انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کے مطابق کیا جاوید اقبال بطور چیئرمین نیب سیاست دانوں کے خلاف ماورائے قانون کارروائیاں کر رہے ہیں؟ (فائل فوٹو)
انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کے مطابق کیا جاوید اقبال بطور چیئرمین نیب سیاست دانوں کے خلاف ماورائے قانون کارروائیاں کر رہے ہیں؟ (فائل فوٹو)

پاکستان کی سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں جبری طور پر لاپتا افراد کی تعداد کم ہوکر 2171 تک آ گئی ہے۔ گذشتہ برسوں میں مجموعی طور پر 6668 افراد جبری طور پر گمشدہ رہے ہیں جن میں سے 4497 کی بازیاب ہوچکے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے فیصلہ کیا ہے کہ جبری طور پر لاپتا افراد کے حوالے سے چاروں صوبوں میں خصوصی اجلاس بلا کر شراکت داروں سے مشاورت کے بعد حکمتِ عملی بنائی جائے گی کہ ملک میں افراد کو لاپتا کرنے کا سلسلہ رک سکے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ اس حوالے سے اگر قانون میں کوئی سقم ہے تو اسے دور کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رائج قوانین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

وفاقی حکومت نے ملک بھر سے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا تھا جو جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔

کمیشن کے رجسٹرار کا کہنا ہے کہ ان کی کوششوں سے سیکڑوں گمشدہ افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین مصطفی نواز کھوکھر کی سربراہی میں ہوا جس میں کراچی سے لاپتا ہونے والے سماجی کارکن سارنگ جویو کے معاملے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس نے بتایا کہ گزشتہ شب ان کی واپسی ہو گئی ہے۔

آئی جی سندھ نے بتایا کہ صوبے میں گزشتہ نو برس میں 4100 افراد کی جبری گمشدگی کے مقدمات کا اندراج ہوا جن میں سے 3600 کے قریب افراد بازیاب ہو چکے ہیں اور 500 افراد بدستور لاپتا ہیں۔

لاپتا سارنگ جویو کے والد تاج جویو نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ ان کی واپسی پر انہوں نے قائمہ کمیٹی کا شکریہ بھی ادا کیا۔

تاج جویو نے سندھ سے 228 جبری لاپتا افراد کی فہرست کمیٹی کو پیش کی اور کہا کہ اگر ان لوگوں کا کوئی قصور ہے تو عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے نہ کہ لاپتا رکھا جائے ۔

تاج جویو کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ صدرِ پاکستان کے سرکاری اعزاز کو مسترد کر چکے ہیں جو کہ دیگر لاپتا افراد کی بازیابی تک احتجاجاََ وصول نہیں کریں گے۔

خیال رہے کہ تاج جویو سندھی زبان کے معروف ادیب ہیں جنہیں پاکستان کے یومِ آزادی پر تمغۂ حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم اپنے بیٹے کی جبری گمشدگی کے خلاف بطور احتجاج انہوں نے اعزاز لینے سے انکار کر دیا تھا۔

'چیئرمین لاپتا افراد کمیشن پیش نہ ہوئے تو تحریک استحقاق لائیں گے'

لاپتا افراد کمیشن کے رجسٹرار نے کمیٹی کو بتایا کہ کمیشن کے قیام سے اب تک 6686 افراد کے لاپتا ہونے کے مقدمات درج ہوئے۔ جن میں سے 4497 افراد کی واپسی ہو چکی ہے۔ جب کہ جبری گمشدہ افراد کی تعداد کم ہو کر اب 2171 تک رہ گئی ہے۔

رجسٹرار کمیشن نے کمیٹی کے استفسار پر بتایا کہ کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال آشوبِ چشم اور سابق صدر آصف زرداری کی احتساب عدالت میں پیشی کے باعث سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

اراکین کمیٹی نے سیکیورٹی کی وجوہات کی وجہ سے کمیٹی میں نہ آنے پر اظہار ناراضگی کیا۔

مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ کیا جسٹس جاوید اقبال بطور چیئرمین نیب سیاست دانوں کے خلاف ماورائے قانون کارروائیاں کر رہے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ خطرہ تو سیاست دانوں کو ان سے ہونا چاہیے اور وہ پارلیمنٹ آنے کو سیکیورٹی خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

کمیٹی نے منگل کو ہنگامی اجلاس بلاتے ہوئے لاپتا افراد کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو پیش ہو کر وضاحت کرنے کا کہا ہے۔

مصطفی نواز کھوکھر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی وضاحت سے مطمئن نہ ہوئے تو ان کے خلاف سینیٹ میں تحریک استحقاق لائیں گے۔

گمشدگی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟

پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ چیئرمین لاپتہ کمیشن نے 28 اگست 2018 کو اسی کمیٹی کے اجلاس میں اقرار کیا تھا کہ 153 قانون نافذ کرنے والے اہلکار جبری گمشدگیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا لاپتا افراد کمیشن یہ بتا سکتا ہے کہ انہوں نے ان دو سال میں کتنے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی؟

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے رجسٹرار کمیشن سے سوال کیا کہ انہوں نے اب تک کتنے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر ذمہ داری عائد کی ہے؟

جس کے جواب میں رجسٹرار کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تاہم ان کے پاس اس حوالے سے ریکارڈ موجود نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس بارے میں کوئی اندازہ پیش کرسکتے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین نے کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے پر چاروں صوبوں میں کمیٹی کے خصوصی اجلاس بلائے جائیں گے تا کہ ایسی حکمتِ عملی بنائی جا سکے کہ لاپتا افراد کے اہل خانہ کے کرب کو دور کیا جائے اور اس حوالے سے اگر قانون میں کوئی سقم ہے تو اسے بھی ختم کیا جا سکے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ ایک عرصہ سے چلا آ رہا ہے اور وفاقی وزارتِ انسانی حقوق نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے قانونی بل بنا رکھا ہے۔ جو وزارتِ قانون کی توثیق کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کے بقول اس قانون کی روح سے جبری گمشدگی میں ملوث افراد کے خلاف ضابطۂ فوجداری کے تحت کارروائی ہوگی۔

XS
SM
MD
LG