رسائی کے لنکس

امریکی حکومت کا مختصر دورانیے کا 'شٹ ڈاؤن' ختم ہو گیا


امریکی کانگریس کی عمارت کے پسِ منظر میں سورج طلوع ہورہا ہے۔ بجٹ کی منظوری کے لیے کانگریس میں قانون سازوں کی سرگرمیاں تمام رات جاری رہیں۔
امریکی کانگریس کی عمارت کے پسِ منظر میں سورج طلوع ہورہا ہے۔ بجٹ کی منظوری کے لیے کانگریس میں قانون سازوں کی سرگرمیاں تمام رات جاری رہیں۔

امریکی کانگریس نے جمعے کے روز مختصر دورانیے کا حکومتی کا شٹ ڈاؤن ختم کرنے کے لیے ایک بل کو منظور کرنے کے بعد دستخطوں کے لیے وہائٹ ہاؤس بھیجا تھا جس پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دستخط کر دیے ہیں۔

اس سے قبل وفاقی حکومت کو درکار فنڈز کی منظوری کی ڈیڈلائن گزرنے کے باوجود نیا بجٹ منظور نہ ہونے کے باعث امریکی حکومت ایک بار پھر جزوی 'شٹ ڈاؤن' کا شکار ہو گئی تھی۔

ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ دوسرا موقع ہے جب امریکی حکومت کو 'شٹ ڈاؤن' کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے دوران بجٹ نہ ہونے کے سبب وفاقی حکومت کی معمول سرگرمیاں رک جاتی ہیں۔

امریکی حکومت کو درکار فنڈز کی منظوری کی ڈیڈلائن جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ختم ہو گئی تھی لیکن سینیٹ میں مجوزہ بجٹ پر ہونے والی بحث کے دوران ری پبلکن سینیٹر رینڈ پال کے اعتراضات کے باعث بجٹ، 12 بجے شب کی ڈیڈ لائن سے قبل منظور نہ ہو سکا۔

تاہم امریکی سینیٹ نے ڈیڈلائن گزرنے کے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے بعد رات گئے سرکاری اخراجات کے عبوری بِل کو 28 کے مقابلے میں 71 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کرلیا جس کے بعد اسے منظوری کے لیے ایوانِ نمائندگان بھیجا گیا جس نے جمعے کو علی الصباح بِل کی کثرتِ رائے سے منظوری دے دی۔

ایوان کے 240 ارکان نے بِل کی حمایت جب کہ 186 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ کانگریس کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بِل کو صدر کے دستخط کے لیے وائٹ ہاؤس بھیج دیا گیا ہے۔

لیکن ڈیڈلائن گزرنے کے باعث حکومت کا 'شٹ ڈاؤن' شب 12 بجے کے بعد شروع ہوا جو اب صدر کے دستخط کے بعد ہی ختم ہوگیا ہے۔

کانگریس کی جانب سے جمعے کو منظور کیے جانے والے بِل کے ذریعے 23 مارچ تک حکومت کو درکار اخراجات کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔

اس عرصے کے دوران قانون ساز ڈیموکریٹ اور ری پبلکن ارکان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں تفصیلی بجٹ تیار کریں گے جو 30 ستمبر کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام تک موثر ہوگا۔

امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن راہنماؤں کے درمیان بدھ کو مجوزہ بجٹ تجاویز پر اتفاقِ رائے ہوا تھا جس کے تحت امریکی حکومت کو آئندہ دو سال کے لیے دفاعی اور دیگر مدات میں اخراجات کے لیے درکار فنڈز فراہم کیے جانے تھے۔

اتفاقِ رائے کی روشنی میں تیار کی جانے والی بجٹ تجاویز جمعرات کو سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کی گئیں لیکن سینیٹر رینڈ پال کے اعتراض کے باعث بجٹ تجاویز ڈیڈلائن سے قبل منظور نہ کی جاسکیں۔

امریکی حکومت کو گزشتہ ماہ بھی تین دن کے 'شٹ ڈاؤن' کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد کانگریس نے آئندہ چند روز کے لیے عبوری فنڈز منظور کرتے ہوئے نئے بجٹ کی منظوری کے لیے 9 فروری کی ڈیڈلائن مقرر کی تھی۔

ریاست کینٹکی سے منتخب ری پبلکن سینیٹر رینڈ پال جن کے اعتراضات کی وجہ سے سینیٹ سے بجٹ بروقت منظور نہ ہوسکا
ریاست کینٹکی سے منتخب ری پبلکن سینیٹر رینڈ پال جن کے اعتراضات کی وجہ سے سینیٹ سے بجٹ بروقت منظور نہ ہوسکا

امریکی سینیٹ کے قوانین کے مطابق ایوان کا کوئی بھی رکن جتنی دیر چاہے تقریر کرسکتا ہے اور اسے تقریر سے روکنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ ایوان کے 60 فی صد ارکان اس کی تقریر ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیں۔

کسی بھی امریکی سینیٹر کو کسی بھی معاملے یا مجوزہ قانون پر ہونے والی ووٹنگ پر اعتراض اٹھانے کا بھی حق ہے جس کے بعد وہ معاملہ طویل اور پیچیدہ تاخیری حربوں کا شکار ہوجاتا ہے۔

جمعرات کو ایوان میں بحث کے دوران ریاست کینٹکی سے منتخب سینیٹر رینڈ پال نے بجٹ پر ووٹنگ روکنے کے لیے یہی دونوں حربے استعمال کیے جس پر خود ری پبلکن رہنماؤں نے بھی انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

بجٹ کے خلاف طویل تقریر کرتے ہوئے سینیٹر رینڈ پال نے الزام عائد کیا کہ مجوزہ بجٹ میں آئندہ دو سال کے لیے جن دفاعی اور داخلی اخراجات میں اربوں ڈالر اضافے کی تجویز دی گئی ہے اس سے امریکہ کے مالی خسارے میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔

سینیٹر رینڈ پال نے کہا کہ ڈیموکریٹ اور ری پبلکن ارکان کے درمیان ایک روز قبل ہونے والے معاہدے کی روشنی میں ایوان کے سامنے 700 صفحات پر مشتمل بجٹ رکھ دیا گیا ہے جسے ایک رات میں پرنٹ کیا گیا اور ان کے بقول ایوان میں سے کسی نے اسے پڑھنے کی زحمت تک نہیں کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ پوری دیانت داری سے سمجھتے ہیں کہ اتنی بھاری رقم کی منظوری ٹھیک نہیں اور وہ اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے کہ اس سے قومی خزانے پر قرضوں کا کتنا بوجھ پڑے گا۔

امریکی سینیٹ میں ری پبلکن اکثریتی رہنما مچ مکونیل اور ڈیموکریٹ رہنما چک شومر جنہوں نے بدھ کو دونوں پارٹیوں کے درمیان بجٹ سے متعلق معاہدے کا اعلان کیا تھا۔
امریکی سینیٹ میں ری پبلکن اکثریتی رہنما مچ مکونیل اور ڈیموکریٹ رہنما چک شومر جنہوں نے بدھ کو دونوں پارٹیوں کے درمیان بجٹ سے متعلق معاہدے کا اعلان کیا تھا۔

سینیٹر رینڈ پال کے اس موقف پر ری پبلکن رہنماؤں نے سخت برہمی ظاہر کی۔

ریاست جنوبی کیرولائنا سے منتخب ری پبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے ایوان میں اپنی تقریر میں رینڈ پال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج و بجٹ میں تجویز کیے جانے والے فنڈز کی فوری اور اشد ضرورت ہے کیوں کہ ان کے بقول ایک مدت سے جاری بجٹ کٹوتیوں کی وجہ سے پینٹا گون کو مشکلات کا سامنا ہے۔

سینیٹر گراہم نے کہا کہ محض بجٹ خسارے کو جواز بنا کر میدانِ جنگ میں برسرِ پیکار امریکی فوجیوں کی ضروریات سے صرفِ نظر کرنا کسی طور درست نہیں۔

سینیٹر رینڈ پال کی مداخلت کے باعث ڈیڈ لائن سے قبل بجٹ کی منظوری کا ری پبلکن رہنماؤں کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔

ری پبلکن رہنماؤں کی حکمتِ عملی کے مطابق سینیٹ سے منظوری کے فوراً بعد بجٹ تجاویز ایوانِ نمائندگان سے منظور کرائی جانا تھیں جس کے بعد قانون کو دستخط کے لیے وائٹ ہاؤس روانہ کیا جاتا جہاں وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط کے بعد ڈیڈلائن گزرنے سے قبل ہی نافذ العمل ہوجاتا اور امریکی حکومت 'شٹ ڈاؤن' سے بچ جاتی۔

XS
SM
MD
LG