رسائی کے لنکس

بھارت میں قید سات صحافیوں میں سے پانچ مسلمان، حکومت کو آزادیٴ صحافت پر تنقید کا سامنا


صحافیوں کی متعدد تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت میں حکومت کی جانب سے پریس کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
صحافیوں کی متعدد تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت میں حکومت کی جانب سے پریس کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹکٹ جرنلسٹس‘ (سی پی جے) نے ذرائع ابلاغ کی عالمی صورتِ حال پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اب بھی سات صحافی جیل میں ہیں اور پریس کے ساتھ اپنے رویے کی وجہ سے حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

قید صحافیوں میں سے پانچ مسلمان ہیں جن میں سے چار بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ تنقید بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں صحافیوں کے خلاف احتیاطی حراست کے ایک قانون ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ (پی ایس اے) کے نفاذ پر ہو رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافی آصف سلطان، فہد شاہ اور سجاد گل کے خلاف مذکورہ قانون کے تحت کارروائی کی گئی، جس کی وجہ سے عدالت کی جانب سے دیگر معاملات میں ضمانت ملنے کے باوجود وہ جیل میں ہیں۔

یہ قانون انتظامیہ کو کسی بھی صحافی کو مقدمہ چلائے بغیر دو سال تک جیل میں رکھنے کا اختیار دیتا ہے۔

مذکورہ صحافیوں کے علاوہ منان ڈار، گوتم نولکھا، روپیش کمار اور صدیق کپن بھی جیل میں ہیں۔

ان لوگوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے سخت قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ اس دفعہ میں جلد ضمانت نہیں ہوتی۔

آصف سلطان کو پولیس نے اگست 2018 میں، فہد شاہ کو رواں سال کے چار فروری کو، سجاد گل کو چھ جنوری کو اور منان ڈار کو گزشتہ سال اکتوبر میں گرفتار کیا تھا۔

صدیق کپن کیرالہ کے صحافی ہیں۔ انہیں پانچ اگست 2020 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اترپردیش کے ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کی مبینہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کے واقعے کی کوریج کے لیے دہلی سے ہاتھرس جا رہے تھے۔

روپیش کمار ایک آزاد صحافی ہیں۔ ان کو رواں سال جولائی میں جھارکھنڈ کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

گوتم نولکھا ایک سینئر صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔ وہ ان 16 افراد میں شامل ہیں جن پر 2018 میں پونے کے نزدیک بھیما کورے گاؤں میں تشدد کرنے کا الزام ہے۔ وہ 2020 سے جیل میں ہیں۔

صحافیوں کی متعدد تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت میں حکومت کی جانب سے پریس کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوما کانت لکھیڑہ کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت خود پر تنقید برداشت نہیں کرتی اور جو صحافی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں ان کو پریشان کیا جاتا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت سے تسلیم شدہ صحافیوں کو پارلیمانی کارروائی کور کرنے کی آزادی ہے لیکن حکومت نے اس آزادی کو محدود کر دیا ہے۔

ان کے مطابق حکومت نے 2019 میں کرونا وبا کی وجہ سے پارلیمانی کارروائی کی کوریج کے مقصد سے صحافیوں کے پارلیمان میں داخلے کے لیے لاٹری سسٹم نافذکیا، جس کے تحت مختلف زبانوں کے صرف 30 صحافیوں کو ایوان کی پریس گیلری میں جانے کی اجازت ہے۔ یہ اجازت ایک ہفتے کے لیے ہوتی ہے۔ دوسرے ہفتے میں دوسرے صحافیوں کو اجازت ملتی ہےجب کہ اس پابندی سے قبل لگ بھگ 400 صحافی پارلیمنٹ کی کارروائی کور کرتے تھے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جب کرونا کی وجہ سے عائد کی جانے والی دیگر پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں تو اس پابندی کو بھی ختم کیا جائے۔

ان کے مطابق پارلیمانی کارروائی کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ٹی وی پر براہِ راست نشر کیا جاتا ہے لیکن اگر ایوان میں زیادہ ہنگامہ ہو رہا ہو تو بعض اوقات ٹی وی بند کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے صحافی ایوان کی حقیقی صورتِ حال سے ناواقف رہ جاتے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پریس کی آزادی کو کم کرنے کی حکومت کی کوششیں جمہوری اصولوں کے منافی ہیں اور صحافی تنظیموں کی جانب سے اس کی مخالف کی جاتی رہی ہے۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ (آر ایس ایف) پریس کی آزادی سے متعلق سالانہ 180 ملکوں کی درجہ بندی جاری کرتی ہے جس کے مطابق بھارت 2002 میں 80 ویں نمبر پر تھا جو کہ 2022 میں نیچے جا کر 150 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔

حکومت اس درجہ بندی کو مسترد کرتی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر کا رواں سال کے جولائی میں پارلیمنٹ میں کہنا تھا کہ حکومت اس کے طریقۂ کار اور سیمپل سائز کی وجہ سے اس درجہ بندی کو تسلیم نہیں کرتی۔

ان کے مطابق حکومت دستور کی دفعہ 19 میں دیے گئے اظہار رائے کے حق کو یقینی بنانے کی پابند ہے۔ حکومت پریس کی آزادی کی حامی ہے اور اس کو محدود کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG