رسائی کے لنکس

اٹھارہویں ترمیم پر حکومت کی حزب اختلاف کو بات چیت کی پیش کش


شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے اچھے پہلوؤں کو قبول کرتے ہیں۔ تاہم، بعض کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے نظرثانی کی ضرورت ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے اچھے پہلوؤں کو قبول کرتے ہیں۔ تاہم، بعض کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے نظرثانی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اٹھارہویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اس کے اچھے پہلوؤں کو قبول کرتے ہیں۔ تاہم، بعض کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے نظرثانی کی ضرورت ہے''۔

سینیٹ آف پاکستان کے کرونا وائرس کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کو دس سال ہو چکے ہیں۔ لہذا، اس کے کمزور پہلوؤں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی سیاست میں ان دنوں اٹھارہویں ترمیم موضوعِ بحث ہے اور حکمراں جماعت، پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملک میں یکساں پالیسی کے نفاذ میں یہ ترمیم ''رکاوٹ ہے''۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کسی قسم کی تبدیلی کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ''قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش'' قرار دیا گیا ہے۔

2010 میں پارلیمنٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے والی آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صدر مملکت کے اختیارات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو منتقل کردئے گئے تھے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حکمران جماعت کے رہنما نے اس آئینی ترمیم پر بات کی ہو۔ حال ہی میں، وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا تھا کہ کرونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں ملک بھر میں ایک ہی پالیسی رکھنے میں 18ویں آئینی ترمیم بڑی رکاوٹ ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ''اٹھارہویں آئینی ترمیم کی آفادیت، اہمیت اور صوبائی خودمختاری کے اصول کے قائل کل بھی تھے آج بھی ہیں''.
ان کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ حکمران اتحاد دو تہائی اکثریت نہیں رکھتا۔ خیال رہے کہ پاکستان کے آئین میں ترمیم کے لئے دونوں ایوانوں، یعنی قومی اسمبلی و سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔

وزیر خارجہ نے سندھ کی صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے آرڈیننس لائے جا رہے ہیں، جو صوبے کی بجائے وفاق کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ''کیا سندھ حکومت بجلی و گیس کے بلوں کو معاف کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟'' اور مزید کہا کہ کیا صوبائی حکومت ایسی قانون سازی کر سکتی ہے جس کا اسے اختیار حاصل نہیں ہے۔

اگرچہ سیاسی سطح پر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے اختیارات اور وسائل کی تقسیم پر تنقید ہوتی رہی ہے، تاہم پہلی بار حکمراں جماعت نے اس پر نظرثانی کے لئے حزب اختلاف کو بات چیت کی دعوت دی ہے۔

حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی کے لئے بات چیت کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے۔

وائس آف امریکہ کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت بتائے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر ان کے اعتراضات کیا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اس آئینی ترمیم کے ذریعے آمرانہ ادوار میں مسخ کئے گئے آئین پاکستان کو اصل حالت میں بحال کیا گیا ہے''۔

بلاول بھٹو نے حکومتی وزرا کے اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب تمام سیاسی جماعتیں قومی اتفاق رائے کی بات کر رہی ہیں، حکومتی رہنما متنازعہ موضوعات کو ہوا دے رہے ہیں۔

یہ لوگ، بقول ن کے، ''موجودہ جمہوری آئین کو آمرانہ سوچ کا عکاس بنانا چاہتے ہیں، جو پیپلز پارٹی کسی صورت برداشت نہیں کر سکتی''۔

خیال رہے کہ 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں ہی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے 1973 کے آئین کی 102 شقوں میں رد و بدل کیا گیا تھا۔

دوسری جانب، سینیٹ اجلاس میں حزب اختلاف نے کرونا وائرس کے حوالے سے مبینہ ''ناکافی اقدامات اور واضع حکمت عملی کے فقدان'' کے معاملے پر حکومت کو ہدف تنقید بنایا۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین نے وزیر اعظم عمران خان کے بیانات کو ''قومی اتحاد کو متاثر کرنے اور تقسیم کرنے'' کا موجب قرار دیا۔

مسلم لیگ ن کے پارلیمانی قائد راجہ ظفر الحق نے کہا کہ حکومت نے پہلے لاک ڈاؤن کے حوالے سے ابہام پیدا کیا اور پھر لاک ڈاؤن بھی کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بحران کے حالات میں کوشش یہ کرنی چاہیے تھی کہ حکومت ایسا رویہ اختیار کرتی کہ قومی یکجہتی کی فضا پیدا ہوتی۔ تاہم، بقول ان کے، پالیسی اس کے برعکس اپنائی گئی۔

پیپلز پارٹی کی پارلیمانی سربراہ شیری رحمٰن نے وزیراعظم کی ایوان میں عدم موجودگی پر انہیں لاپتا قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پاکستان کی پالیسیاں، ان کی جانب سے اتحاد اور ہمدردی کے الفاظ ناپید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ''کہاں اور لاپتا کیوں ہیں؟'' بقول ان کے، ''وزیراعظم پارلیمان سے کیوں ڈر رہے ہیں؟ اس بات کا یقین ہے وزیراعظم کرونا سے ڈرتے نہیں، لیکن پارلیمان کیوں نہیں آتے؟''

شیری رحمٰن نے کہا کہ ملک کو بحرانی صورتحال کا سامنا ہے اور مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس تک نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''آئینی اداروں، بالخصوص پارلیمان سے ایسے مواقع پر رہنمائی لی جاتی ہے۔ لیکن، حکومت آئینی اداروں کو ان کا کردار دینے کو تیار نہیں ہے''۔

حزب اختلاف کے رہنماؤں کی تنقید اور اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کرونا وائرس کے تدارک کی حکمت عملی بنائی ہے۔

وزیراعظم کی عدم موجودگی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے حکومتی رہنما کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اسلام آباد میں ہی ہیں اور روزانہ باقاعدگی کے ساتھ کرونا وائرس سے متعلق اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔

سینیٹ کا اجلاس دو ماہ سے زائد عرصے کے بعد ہو رہا ہے، جس کا ایجنڈا کرونا وائرس کے اثرات اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات پر بحث کرنا ہے۔

پاکستان میں کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن میں نرمی کے آغاز کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس منعقد کئے جا رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG