رسائی کے لنکس

'عمران خان کو زبردستی نااہل کیا گیا تو منفی نتائج ہوں گے'


پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اقتدار کی سیاست کو پیچھے رکھتے ہوئے الیکشن سے قبل سیاسی جماعتیں اتفاقِ رائے سے مستقبل کے راستے کا تعین کریں۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ملک کو چلانے کے لیے نظام میں بنیادی تبدیلیاں اور اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جو کہ کوئی ایک جماعت یا اتحادی حکومت نہیں کر سکتی بلکہ فوج، عدلیہ اور سیاست دانوں کو مل کر حکمتِ عملی طے کرنا ہو گی۔

شاہد خاقان عباسی کے بقول گزشتہ پانچ سال میں ہر سیاسی جماعت اقتدار میں رہی ہے لیکن ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں سب ناکام رہی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے یہ بھی ضروری ہو گا کہ عام انتخابات کی شفافیت پر سوال نہ اٹھیں اور عوام الیکشن کے نتائج کو قبول کریں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں کوئی جماعت سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کر سکے گی بلکہ شاید اکثریت کے قریب بھی نہ پہنچ سکے۔ اس بنا پر وہ کہتے ہیں کہ آئندہ حکومت اتحادی حکومت ہو گی اور اس میں کون کون سی سیاسی جماعتیں شامل ہو گی اس کا فیصلہ انتخابی نتائج آنے کے بعد ہی ہو سکے گا۔

'ںواز شریف خاموشی چھوڑیں اور عوام کو اپنی سوچ بتائیں'

شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو خاموشی ترک کر کے عوام کو اپنی سوچ کے متعلق بتانا چاہیے کہ وہ ملک اور سیاست کو کس سمت پر لے کہ جانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے پسندیدہ ہونے اور نواز شریف کے 'لاڈلے' کے تاثر کو ختم کیا جانا چاہیے کیوں کہ اس سے سیاست اور انتخابات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کے بجائے صرف اقتدار کے حصول کی سیاست کر رہی ہے جس سے وہ اتفاق نہیں کر سکتے۔

خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کا شمار مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے، لیکن حالیہ عرصے میں مختلف وجوہات کی بنا پر وہ پارٹی سرگرمیوں سے دُور ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل اور پیپلزپارٹی کے سابق رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ساتھ مل کر ’ری امیجننگ پاکستان' کے نام سے ایک پلیٹ فارم قائم کر رکھا ہے۔ اس کے تحت وہ ملک کے مختلف شہروں میں ملکی مسائل کی نشان دہی اور ان کے حل سے متعلق سیمینارز کا بھی اہتمام کرتے رہے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جماعت کی ان پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے وہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بنا پر بھی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے کہ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی ممکنہ خرابی سے خود کو دور رکھ سکیں۔

سابق وزیرِ اعظم بولے کہ وہ سوچ کا اظہار نواز شریف سے کرتے رہے ہیں اور جب بھی موقع ملا جماعت کو اپنی رائے دیتا رہوں گا۔

شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ ان کی مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز سے کوئی ناراضگی یا اختلاف نہیں ہے، اعتراض صرف یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں بھی اس وقت نظریے یا سوچ کی نہیں بلکہ صرف اقتدار کے حصول کی سیاست کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے وزیرِ اعظم بننے کے فیصلے سے جماعت کو فائدہ ہوا یا نقصان، اس کا فیصلہ عوام آئندہ انتخابات میں کریں گے۔ تاہم ان کی نظر میں گزشتہ اتحادی حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں رہی اور عوام کو سہولت دینے کے بہت سے کام کیے جا سکتے تھے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے باوجود الیکشن میں التوا کی باتیں ہو رہی ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہو گا۔

'عمران خان کو زبردستی نااہل کیا گیا تو منفی نتائج ہوں گے'

قانونی مقدمات کے باعث عمران خان کے انتخابی سیاست سے باہر ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ سابق وزیرِاعظم کو حقائق اور قانون کی بنیاد پر سزا دی جانی چاہیے اور اگر ماضی کی طرح عدالتوں سے زبردستی فیصلے لیے گئے تو اس کے منفی اثرات ہوں گے۔

الیکشن کی بازگشت: کیا حالات نواز شریف کے حق میں ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:52 0:00

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان کو سزا حقائق کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اسے قبول کیا جائے گا اور اگر الٹے سیدھے مقدمات بنائے گئے تو نہ تاریخ اسے قبول کرے گی نہ ہی عوام مانیں گے۔

'نواز شریف کی نااہلی ختم کر کے تلافی کی جائے'

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جولائی 2017 میں نواز شریف کو سزا دے کر ناانصافی کی گئی جسے دور کر کے کم از کم تاریخ کی درستگی ہو سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو عدالتی فیصلے کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے ملک اور سیاست پر بے پناۃ اثرات مرتب ہوئے اور پاکستان آج جن مخدوش حالات سے گزر رہا ہے اس میں اس فیصلے کا برا اثر ہے۔

واضح رہے کہ 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس میں جب نواز شریف کو وزارتِ عظمی سے الگ ہونا پڑا تو مسلم لیگ (ن) نے شاہد خاقان عباسی کو وزیرِ اعظم نامزد کیا تھا۔ وہ لگ بھگ ایک برس تک اس منصب پر فائز رہے تھے۔

نواز شریف کی انتخابات کے لیے اہلیت کے مقدمات پر بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سات سال ہو چکے ہیں اور یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہی تھا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو سزا دینے والے احتساب عدالت کے جج خود تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے یہ فیصلہ دباؤ میں دیا تھا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انہوں نے فیض آباد کمیشن کو کہا ہے کہ اس وقت کی حکومت نے جو بھی اقدام لیے یا نہیں لیے وہ بطور وزیرِ اعظم ان سب کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔

فیض آباد کمیشن میں اپنی پیشی پر گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کمیشن نے انہیں فون کر کے بلوایا تھا اور ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) نہیں بتائے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کمیشن سے پوچھا کہ ان کے ٹی او آرز کیا ہیں؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنایا گیا ہے اور اس کے ٹی او آرز مجھے بھجوائے جائیں گے۔

واضح رہے کہ نومبر 2017 میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے جنکشن فیض آباد کے مقام پر تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے پر کیس کا فیصلہ نومبر 2018 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے محفوظ کیا تھا۔ بعد ازاں اس از خود نوٹس کیس کو سپریم کورٹ نے 2019 میں نمٹا دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جینس ایجنسیوں اور فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

فیض آباد دھرنے کی وجہ قومی اسمبلی کی جانب سے الیکشن میں امیدواروں کے حلف نامے میں تبدیلی بنی تھی۔

بعد ازاں فوج کی ثالثی سے ایک معاہدے کے تحت اُس وقت کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد سے استعفیٰ لے لیا تھا۔

پاکستان کی نگراں حکومت نے گزشتہ ماہ فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔ یہ کمیشن دو ماہ میں اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG