رسائی کے لنکس

شاہ زیب قتل کیس: مجرموں کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب کے قتل میں سزائے موت پانے والے دو مجرموں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

شاہ زیب کو 2012 میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں معمولی تلخ کلامی پر مجرم شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

عدالت نے شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھی سراج تالپور کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے جبکہ دو مجرموں کی عمر قید کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔

شاہ رخ جتوئی کے وکلاء نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رُجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے شاہ زیب قتل کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو قصوروار ٹھہرانے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ تاہم شواہد کی روشنی میں دونوں مجرموں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا حکم دیا ہے۔

مقتول شاہ زیب کے والدین نے ملزمان کے ساتھ دیت کے قانون کے تحت صلح کر لی تھی۔
مقتول شاہ زیب کے والدین نے ملزمان کے ساتھ دیت کے قانون کے تحت صلح کر لی تھی۔

شاہ رخ جتوئی کے وکلاء نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ مقتول شاہ زیب کے اہل خانہ کے ساتھ صلح نامہ ہو چکا ہے لہذا مجرمان کو بری کیا جائے جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔

63 صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت مجرمان کو دی گئی موت کی سزائیں عمر قید میں تبدیل کی جاتی ہیں تاہم انسداد دہشت گردی قوانین کی روشنی میں درج مقدمے میں صلح نامے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

مجرم شاہ رخ جتوئی کے وکلاء نے یہ بھی موقف اپنایا کہ جرم کے وقت شاہ رخ نابالغ تھا۔ ملزم کی عمر کا دوبارہ تعین کرنے کا حکم دیا جائے تاہم عدالت نے یہ درخواست بھی مسترد کر دی۔

ہائی کورٹ نے اسی کیس میں سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کی عمر قید کی سزا کے خلاف اپیلیں مسترد کرتے ہوئے انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

24 اور 25 دسمبر 2012 کی درمیانی رات کراچی کے علاقے کلفٹن میں تلخ کلامی کے بعد 19 سالہ شاہ زیب کو مجرمان نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

بااثر ملزمان کے خلاف ملک بھر میں سول سوسائٹی نے احتجاج بھی کیا تھا۔
بااثر ملزمان کے خلاف ملک بھر میں سول سوسائٹی نے احتجاج بھی کیا تھا۔

2013 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت دو ملزمان کو سزائے موت جبکہ ان کے دو ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم اسی سال سندھ ہائی کورٹ نے مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کرنے کا حکم دیا تھا۔

دو سال قبل شاہ زیب کے اہل خانہ نے دیت کے قانون کے تحت ملزم شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا تھا جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 2018 میں معاملے کا ازخود نوٹس لے کر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG