رسائی کے لنکس

ریاست مخالف تقاریر: رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر کی درخواستِ ضمانت منظور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ ہائی کورٹ نے ریاست مخالف تقایر کے ایک مقدمے میں گرفتار رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے بدھ کو علی وزیرِ کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کی تو اس موقع پر فریقین وکلا نے دلائل پیش کیے۔

عدالت نے طرفین کے دلائل سننے کے بعد علی وزیر کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں پانچ لاکھ روپے مچلکے جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔

یاد رہے کہ علی وزیر کے خلاف اشتعال انگیز اور ریاست مخالف تقاریر سے متعلق تین مقدمات درج ہیں۔ ایک مقدمے میں وہ پہلے ہی سپریم کورٹ سے ضمانت حاصل کر چکے ہیں جب کہ مزید ایک مقدمے میں ان کی درخواست زیرِ سماعت ہے۔

​اشتعال انگیز تقاریر کے مقدمے میں رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ، پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین اور ڈاکٹر جمیل بھی نامزد ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ میں بدھ کو دورانِ سماعت عدالت نے علی وزیرِ کے شریک ملزمان کو گرفتار کرنےکے بارے میں استفسار کیا کہ ان تین ملزمان کی ضمانت کو بھی چیلنج نہیں کیا گیا؟

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ محسن داوڑ رکنِ قومی اسمبلی ہیں جن کی گرفتاری کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی سے اجازت لینا ہوگی جب کہ منظور پشتین مفرور ہیں جن کی گرفتار کی کوشش کررہے ہیں۔

عدالت نے استفار کیا کہ علی وزیر کو گرفتار کرنے کے لیے کیا اسپیکر سے اجازت لی تھی؟ جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ علی وزیر سہراب گوٹھ تھانے میں درج مقدمے میں پہلے سے گرفتار تھے جن کی گرفتاری شاہ لطیف تھانے میں درج مقدمے میں جیل میں ڈالی گئی۔

اس موقع پر علی وزیر کے وکیل صلاح الدین گنڈاپور نے سوال کیا کہ اگر علی وزیر اور محسن داوڑ غدار ہیں تو پھر ایک کو وفاقی وزیر کیوں بنایا گیا ہے؟ وکیل کے سوال پر جسٹس اقبال کلہوڑو مسکرا دیے۔

'یہ بتائیں علی وزیر کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ کہاں ہے؟'

جسٹس کلہوڑو نے استفسار کیا کہ کیا علی وزیر کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ موجود ہے اور انہوں نے نعرے لگائے یا نعرے لگوائے؟ جس پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ علی وزیر نے تقریر کی تھی اور نعرے کسی اور نے لگائے تھے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ علی وزیر اور دیگر کے خلاف پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے اور جب اداروں کے خلاف تقاریر ہو رہی تھیں تو پولیس کانسٹیبل منظور اس وقت موجود تھا۔

جس پر جسٹس کلہوڑو نے کہا کہ پولیس کانسٹیبل منظور کو چھوڑیں، ہمیں یہ بتائیں تقریر کا ٹرانسکرپٹ کہاں ہے؟ جس کو پشتو زبان نہیں آتی اسے کیا معلوم تقریر کرنے والے کیا کہہ رہے ہیں۔

عدالت نے تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے بادشاہی مچائی ہوئی ہے، ایک عرصے سے مقدمہ زیرِسماعت ہے اور ایک گواہ کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے ایک ٹوئٹ کہا کہ کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں ایک اور مقدمے کی سماعت جمعرات کو ہو رہی ہے اور توقع ہے کہ عدالت تیسرے مقدمے میں بھی ضمانت دے دے گی۔

انہوں نے علی وزیر کی رہائی کے لیے کوششیں کرنے والے پشتون تحفظ تحریک اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کا شکریہ ادا کیا۔

پشتون تحفظ تحریک کے بانی رہنما محسن داوڑ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ علی وزیر کی رہائی کےفیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ایک اور مقدمے میں عدالت علی وزیر کو ضمانت پر رہا کر دے گی۔

واضح رہے کہ علی وزیر نے چھ دسمبر 2020 کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں پشتون تحفظ تحریک کے ایک جلسے سے خطاب کیا تھا جس کے بعد کراچی پولیس نے ان کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کا مقدمہ درج کیا تھا۔ اسی مقدمے میں پشاور پولیس نے 16 دسمبر 2020 کو انہیں حراست میں لے کر سندھ پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔

مذکورہ مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے درخواستِ ضمانت مسترد ہونے کے بعد علی وزیر کے وکلا نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اعلیٰ عدالت نے 30 نومبر 2021 کو علی وزیر کی درخواستِ ضمانت منظور کی تھی۔

XS
SM
MD
LG