رسائی کے لنکس

لال حویلی سیل کرنے کا معاملہ،سات یونٹ ڈی سیل کرنے کی استدعا خارج


لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے جسٹس مرزا وقاص رؤف نے لال حویلی کو سیل کیے جانے سے متعلق درخواست نمٹا دی ہے۔

ایڈمنسٹریٹر وقف املاک نے عدالت کو بتایا کہ لال حویلی کو سیل نہیں کیا گیا بلکہ اسے متصل پراپرٹی کو سیل کیا گیا ہے۔

عدالت نے لال حویلی میں سیل کیے جانے والے سات یونٹس کو ڈی سیل کرنے کی استدعا خارج کر دی۔

عدالت نے متروکہ وقف املاک کو 15 دن میں معاملہ نمٹانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے متروکہ وقف املاک کو شیخ رشید کی دائر کردہ اپیل پر سماعت کے لیے بھی 15 دن دیے ہیں۔

قبل ازیں​ یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ متروکہ وقف املاک بورڈ راولپنڈی نے سابق وفاقی وزیرِ داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی رہائش گاہ لال حویلی کو سیل کر دیا ہے۔ شیخ رشید نے اس عمل کو انتقامی کارروائی قرار دیا تھا۔

ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر وقف املاک آصف خان پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ پیر کی صبح لال حویلی پہنچے اور کارروائی کرتے ہوئےحویلی کے کئی یونٹس سیل کیے۔

اس آپریشن میں وقف املاک کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی مدد بھی حاصل تھی۔

وقف املاک بورڈ نے شیخ رشید کی حویلی سیل کرنے کے آپریشن کے لیے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی، سی پی او اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کو معاونت کے لیے پہلے ہی خطوط ارسال کیے تھے۔

ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر آصف خان کے مطابق شیخ رشید اور ان کے بھائی شیخ صدیق لال حویلی سمیت وقف املاک کی سات اراضی یونِٹس پر غیر قانونی طور پر قابض ہیں جنہیں حویلی خالی کرنے کے لیے متعدد نوٹسز بھیجے گئے تھے۔

ان کے بقول شیخ رشید اور ان کے بھائی حویلی کی ملکیت سے متعلق کوئی ریکارڑ یا مستند دستاویز پیش نہیں کرسکے جب کہ عدالت بھی شیخ رشید کی حکم امتناع کی درخواست خارج کرچکی ہے۔

شیخ رشید نے دعویٰ کیا کہ انہیں متروکہ وقف املاک بورڈ کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں ملا اور حویلی کو سیل کرنے کے خلاف وہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ لال حویلی کوسیل کرنا سیاسی دہشت گردی ہے۔اگریہ ان کی ذاتی ملکیت نہیں تووہ قومی مجرم ہیں۔

شیخ رشید نے دعویٰ کیا کہ برطانوی کمپنی لال حویلی پرفلم بنانےجارہی ہےجو حکومت کو برداشت نہیں۔ 16وزارتوں کی چھان بین سےکچھ نہ ملا تو حویلی پرچڑھائی کردی۔ ان کے بقول اس معاملے پر ایک درخواست عدالت میں زیرِ سماعت ہے جس کی تاریخ 15 فروری مقرر ہے۔

راولپنڈی کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جہلم سے تعلق رکھنے والے ایک امیر شخص دھن راج سہگل نے لال حویلی کی بنیاد رکھی تھی۔اس کا پس منظر کچھ یوں بتایا جاتا ہے کہ جہلم ہی میں ایک شادی کی تقریب کے دوران بدھاں بائی نامی ایک رقاصہ کے رقص کی محفل سجائی گئی، جہاں دھن راج سہگل ان کے عشق میں مبتلا ہوگئے تھے۔

اس کے بعد دھن راج سہگل نے راولپنڈی کے بوہڑبازار کے علاقے میں چھ کنال اراضی پر ایک حویلی بنوائی تھی، جس کا نام اس وقت 'سہگل حویلی' تھا۔اس حویلی میں ایک مسجد اور ایک مندر کی تعمیر بھی کی گئی تھی۔

شیخ رشید بتاتے ہیں کہ بدھاں بائی نے سہگل حویلی میں منتقل ہونے کے بعد رقص کرنا چھوڑ دیا تھا اور ایک مذہبی گھریلو عورت کی زندگی شروع کردی تھی۔ وہ اسلامی رسومات اور مذہبی محافل کراتی تھیں، جس پر دھن راج سہگل کھلے ہاتھ سے رقم خرچ کرتےتھے ۔

بدھاں بائی اس حویلی میں ہی رہتی تھیں۔ اس کے اردگرد موجود عمارت میں کئی کمرے تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متروکہ وقف املاک بورڈ کی طرف سے لوگوں کو الاٹ کردیے گئے اور فیکٹریوں میں تبدیل ہوتے رہے ۔ اب سہگل حویلی جو 'لال حویلی' بن چکی ہے وہ صرف کچھ مرلے پر قائم ہے۔

شیخ رشید کا کہنا ہے کہ جب وہ سیاست میں آئے تو انہیں کسی جگہ کی ضرورت تھی، جہاں وہ بیٹھ کراپنے سیاسی دوستوں اور ساتھیوں سے میل ملاپ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیےان کے ایک قابلِ اعتماد ساتھی حیدر علی نے اس جگہ کا سودا کیا اور اس کے باقاعدہ رجسٹری بھی ان کے پاس موجود ہے لیکن اس پر متروکہ وقف املاک والے سیاسی مقاصد کی وجہ سے نوٹس ارسال کر رہے ہیں۔

لال حویلی کے حوالے سے شیخ رشید نے کہا کہ سہگل حویلی کی ہئیت موجودہ عمارت سے بہت مختلف تھی۔ جب انہوں نے یہ عمارت خریدی تو اس کے سامنے کے کچھ حصوں پر لکڑی کا کام کرایا اور اس کا رنگ لال کر دیا۔ اس کے بعد ہی ان کے بعض ساتھیوں نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ اس کا نام 'لال کوٹھی' رکھا جائے البتہ شیخ رشید نے اس کا نام 'لال حویلی' رکھا اور بعد میں اسی نام سے اسے شہرت ملی۔

شیخ رشید مزید بتاتے ہیں کہ اس عمارت میں رہتے ہوئے وہ 16 مرتبہ وزیر بنے اور یہاں پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا جب کہ آج بھی شہر میں کوئی بھی سیاسی ہلچل ہو یا کوئی بھی معاملہ ہو تو لوگ لال حویلی کا رخ کرتے ہیں۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور روزنامہ'نوائے وقت' کے بیوروچیف عزیز علوی 'لال حویلی' کے سیاسی سرگرمیوں کے مرکز بننے کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہلی مرتبہ 1987 کے میں یہ عمارت اس وقت لوگوں کی نظروں میں آئی جب شیخ رشید احمد نے کونسلر کا الیکشن لڑا اور راولپنڈی سے میئر کے امیدوار بھی بنے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شیخ رشید نے لال حویلی کو 'پبلک سیکرٹریٹ' قرار دے دیا تھا، جس کے بعد ان کی سیاسی زندگی کا بھرپور آغازہوا اور لال حویلی سیاسی ہلچل کا گڑھ ہوا کرتی تھی۔

لال حویلی کے علاوہ شیخ رشید وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں بھی ایک گھر کے مالک ہیں جب کہ پنجاب میں فتح جنگ کے قریب ایک فارم ہاؤس بھی ان کی ملکیت ہے، جس کا نام انہوں نے 'فریڈم ہاؤس' رکھا ہے البتہ شیخ رشید کا سیاسی پتہ 'لال حویلی' ہے۔

XS
SM
MD
LG