رسائی کے لنکس

قبائلی علاقوں میں غذا کی دستیابی کی صورتحال میں بہتری: رپورٹ


فائل
فائل

رپورٹ میں 2014ء سے رواں برس تک غذائی عدم دستیابی کی صورتحال میں مسلسل اور بتدریج بہتری ظاہر کی گئی ہے جس کے مطابق 2014ء میں 44 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار تھی اور یہ شرح اب صرف 24 فیصد رہ گئی ہے۔

عالمی ادارہٴ خوراک نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عارضی بے گھر ہونے والے افراد کی غذائی ضروریات کو یقینی بنانے کے حوالے سے، ماضی کی نسبت قابل ذکر بہتری آئی ہے۔

فاٹا سیکریٹریٹ کے زیر انتظام ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی پیر کو جاری کردہ رپورٹ میں قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کر جانے والے ایسے افراد کا جائزہ لے کر اعداد و شمار مرتب کیے گئے جو اب اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں۔

رپورٹ میں 2014ء سے رواں برس تک غذائی عدم دستیابی کی صورتحال میں مسلسل اور بتدریج بہتری ظاہر کی گئی ہے جس کے مطابق 2014ء میں 44 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار تھی اور یہ شرح اب صرف 24 فیصد رہ گئی ہے۔

اسی عرصے کے دوران ایسے پانچ فیصد افراد جنھیں شدید غذا کی کمی درپیش تھی، اُن کی شرح اب صرف ایک فیصد بتائی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، خاص طور پر ایسے گھرانے جن کی سربراہی خواتین کر رہی ہیں وہاں خاص طور پر ڈرامائی بہتر دیکھنے میں آئی اور 19 فیصد انتہائی غذائی قلت کے شکار افراد کی شرح کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، جب کہ درمیانے خطرے کے شکار افراد کی شرح 55 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد ہوگئی ہے۔

یہ اعداد و شمار ایک حوصلہ افزا پیش رفت کو تو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ایک عرصے تک عالمی ادارہ خوراک کے ساتھ فرائض انجام دینے والے خوراک اور غذائی تحفظ کے ماہر صاحب حق کے نزدیک اصل صورتحال اس رپورٹ کے برعکس ہے۔

منگل کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں لوگوں کی خوراک اور غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی اس لیے دشوار ہے کیونکہ یہاں روزگار اور کاروبار کے مواقع پہلے جیسے نہیں۔

رپورٹ کے مطابق، "فاٹا میں روزگار بہت کم ہو گیا ہےلوگوں کی رسائی خوراک تک نہیں ہے ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ خوراک خریدیں اگر وہ آٹا خریدیں تو گوشت نہیں خرید سکتے وہ فروٹ نہیں خرید سکتے تو پھر ان کی غذائیت کیسے پوری ہوگئی۔۔۔ذرائع آمدن کم ہیں ان کا افغاستان سے کاروبار پر انحصار زیادہ تھا وہ گدھوں پر جاتے تھے بارڈر جگہ جگہ سے کھلا تھا اور پھر عسکریت پسندی کا اتنا خطرہ نہیں تھا اب وہ کاروبار تقریباً ختم ہو گیا ہے۔"

تاہم، عالمی ادارہ خوراک کی رپورٹ میں اس بہتری کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا گیا کہ گو کہ قبائلی علاقے کے لوگوں کو قدرتی آفات اور دیگر مسائل کا سامنا رہا۔ لیکن، اب انھیں پہلے کی نسبت بہتر ماحول، رہائش اور بنیادی ضروریات زندگی دستیاب ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد حکومت کی کوششوں سے تقریباً ڈھائی لاکھ عارضی بے گھر خاندان اپنے علاقوں کو واپس آ چکے ہیں، جب کہ 50 ہزار خاندان اب بھی اپنے علاقوں سے دور ہیں۔

XS
SM
MD
LG