رسائی کے لنکس

معاشی شرحِ نمو میں کمی؛ کیا بھارت معاشی اہداف حاصل کرپائے گا؟


ماہرین کے مطابق بھارت کے پیداواری شعبے بدستور کمزور کا شکار ہے۔
ماہرین کے مطابق بھارت کے پیداواری شعبے بدستور کمزور کا شکار ہے۔

بھارتی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی بھارت کی مجموعی اقتصادی شرح نمو کم ہو کر 4.4 فی صد تک آگئی ہے۔

بدھ کو اکتوبر سے دسمبر کے درمیان شرح نمو سے متعلق یہ اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل کی سہ ماہی میں اقتصادی شرح نمو 6.3 فی صد رہی تھی۔اقتصادی ماہرین نے افراطِ زر میں اضافے اور گزشتہ سال مئی میں بھارت کے مرکزی بینک کی جانب سے شرحِ سود میں اضافے کے پیشَ نظر اقتصادی شرح نمو 4.6 فی صد رہنے کا تخمینہ لگایا تھا۔

اعداد و شمار کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اقتصادی ماہرین نے تیسری سہ ماہی کے لیے جو تخمینہ لگایا تھا یہ شرح نمو اس سے کم ہے۔

رواں مالی سال میں مجموعی قومی پیداوار کی حقیقی شرح نمو سات فی صد تک رہنے کا امکان ہے۔ جب کہ حکومت نے مالی سال 2023 کے لیے نامینل جی ڈی پی 15.9 فی صد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔

اقتصادی امور کے لیے حکومت کے مشیر اعلیٰ وی اننتھا ناگیشورن نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ گزشتہ برسوں کے اقتصادی ڈیٹا پر نظرِ ثانی اور شرحِ سود میں اضافہ شرحِ نمو میں گراوٹ کی وجوہ میں شامل ہیں۔

ان کے مطابق معیشت کی رفتار مضبوط اور مستحکم محسوس ہوتی ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم مالی سال 23-2022 میں اقتصادی شرحِ نمو کو سات فی صد تک لے جانے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔

لیکن ریٹنگ کے ایک نجی ادارے ’انوسٹمنٹ انفارمیشن اینڈ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی آف انڈیا‘ سے وابستہ آدیتی نائر کا خیال ہے کہ حکومت کے اعداد و شمار کے ادارے این ایس او نے رواں سال کی شرحِ نمو سات فی صد پر رہنے کی جو توقع ظاہرکی ہے اس کا انحصار اس پر ہے کہ آخری سہ ماہی میں مجموعی قومی پیداوار کی شرح 5.1 فی صد تک پہنچ جائے جو کہ موجودہ توقعات سے کہیں زیادہ ہے۔

اقتصادی امور سے متعلق نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’سینٹر فار بجٹ اینڈ گورننس اکاونٹیبلٹی‘ (سی بی جی اے) سے وابستہ ماہر اقتصادیات جاوید عالم خان کا کہنا ہے کہ آخری سہ ماہی میں بھی شرح نمو کے 4.4 فی صد کے آس پاس رہنے کا امکان ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جی ڈی پی شرح نمو کے سات فی صد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے لیکن اب شرح نمو وہاں تک نہیں پہنچ پائے گی۔

ان کے خیال میں ریزرو بینک نے 6.8 فی صد کا جو تخمینہ لگایا ہے شرح نمو اگر وہاں تک پہنچ جائے تو بھی بڑی بات ہو گی۔ ورنہ اس ہدف کو حاصل کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔

شرحِ نمو میں کمی کے اسباب؟

اقتصادی ماہرین شرح نمو میں گراوٹ پر اظہارِ تشویش کے ساتھ ساتھ اس کے کئی اسباب بتاتے ہیں۔ ان کے خیال میں طلب میں کمی اور پیداواری شعبے یعنی مینوفیکچرنگ سیکٹر میں کمزوری کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارتی معیشت عالمی کساد بازاری اور بین الاقوامی معیشت میں آنے والی سست روی کے بھی زیرِ اثر ہے۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نےبھارتی معیشت کو مالی سال 2023 میں تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل کیا تھا۔

لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی معیشت میں آنے والی مندی کی وجہ سے آئندہ سال بھارتی معیشت کی شرح نمو 6.4 فی صد تک رہنے کا امکان ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق بھارت کا مینوفیکچرنگ سیکٹر تیسری سہ ماہی میں ایک اعشاریہ ایک فی صد سکڑ گیا ہے۔ یہ مسلسل دوسری سہ ماہی ہے جب پرافٹ مارجن یا شرح آمدنی میں کمی اور برآمدات میں سست روی دیکھی جا رہی ہے۔

جاوید عالم کہتے ہیں کہ شرح نمو کا تخمینہ شہریوں کی قوتِ خرید، حکومت کے اخراجات کی سطح اور سرمایہ کاری کی صورت حال وغیرہ کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے۔

ان کے مطابق تیسری سہ ماہی میں شہریوں کی قوتِ خرید میں کمی، حکومت کے اخراجات اور نجی و سرکاری سرمایہ کاری میں سست روی، عالمی کساد بازاری کی وجہ سے شرح نمو کی جو توقع تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شہریوں کی قوت خرید میں کمی بھی شرحِ نمو میں گراوٹ کی ایک وجہ ہے۔ بہت سے لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں، آمدنی کم ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے شہری پہلے کی طرح اپنی ضرورت کی چیزیں خرید نہیں پا رہے ہیں۔ کم ہوتی ہوئی آمدن طلب میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ اقتصادی شرحِ نمو میں گراوٹ کی صورت حال صرف بھارت میں نہیں ہے بلکہ کئی ملکوں کو ایسے حالات کا سامنا ہے۔ اقتصادی سست روی کی ایک وجہ کرونا کی وبا بھی ہے۔ وبا نے عالمی معیشت کو جس طرح متاثر کیا تھا اس میں ابھی تک سدھار نہیں ہو پا رہا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے بھی شرح نمو میں گراوٹ آرہی ہے۔ سپلائی چین کے متاثر ہونے کی وجہ سے کئی ملکوں کے اقتصادی حالات غیر اطمینان بخش ہو گئے ہیں۔

’حالات حوصلہ افزا نہیں‘

انھوں نے چیف اکانومک ایڈوازر وی اننتھا ناگیشورن کے اس رائے سے عدم اتفاق کیا کہ شرح نمو میں گراوٹ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سات فیصد کی شرح نمو کا ہدف حاصل نہیں کر پائیں گے۔

جاوید عالم کے مطابق ناگیشورن اقتصادی امور میں حکومت کے مشیر اعلیٰ ہیں۔ اس لیے وہ امید افزا بات ہی کریں گے۔ لیکن آزاد ماہرین کا خیال ہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنا ناممکن لگتا ہے۔

تاہم وہ اقتصادی ماہرین کے اس خیال سے متفق ہیں کہ موجودہ صورت حال کو بھارتی معیشت کے لیے حوصلہ افزا قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ توقع تھی کہ حکومت لوگوں کی آمدنی کو براہ راست بڑھانے کے مقصد سے بجٹ میں کچھ تجاویز رکھے گی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے صارفین کی قوت خرید میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ بجٹ نے عام آدمی کو بہت مایوس کیا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت میں نجی صارفین کے اخراجات جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار میں 60 فی صد حصہ ڈالتے ہیں۔ لیکن جہاں گزشتہ سال کی تیسری سہ ماہی میں نجی صارفیت کا نظرثانی شدہ حصہ 8.8 فی صد تھا وہیں دسمبر میں ختم ہوئی اس سہ ماہی میں نجی صارفیت میں محض دو اعشاریہ ایک فی صد کا اضافہ ہوا۔

اسی طرح گزشتہ سال کی تیسری سہ ماہی میں کیپٹل انوسٹمنٹ میں 9.3 فی صد کا اضافہ ہوا جب کہ رواں سال کی تیسری سہ ماہی میں اس میں 8.3 فی صد اضافہ ہوا۔لیکن حکومت کے اقتصادی مشیر ناگیشورن کا کہنا ہے کہ نجی سرمایہ کاری بحال ہو رہی ہے۔

شہری اور دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح

ایک اور اقتصادی تجزیہ کار وویک شکلا کہتے ہیں کہ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال میں بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن حکومت اس جانب توجہ نہیں دے رہی ہے جب کہ اسے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے بجٹ میں مزید تجاویز رکھنی چاہیے تھیں۔

’سینٹر فار مانیٹرنگ اکانومی آف انڈیا‘ (سی ایم آئی ای) کے جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رواں سال جنوری میں بے روزگاری کی شرح 7.14 فی صد تھی جو فروری میں بڑھ کر 7.45 فی صد ہو گئی۔

البتہ شہری علاقوں میں بے روزگاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جہاں جنوری میں شہروں میں بے روزگاری کی شرح 8.55 فی صد تھی وہیں فروری میں یہ کم ہو کر 7.93 فی صد پر آگئی۔ جب کہ دیہی علاقوں میں بے روزگاری 6.48 فی صد سے بڑھ کر 7.23 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG