رسائی کے لنکس

یوکرین پر روس کا حملہ، کیف میں پھنسے پاکستانی طلبہ انخلا کے منتظر


یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جہاں دنیا کے مختلف ممالک تشویش کا اظہار کر رہے ہیں وہیں کئی ممالک یوکرین سے اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے بھی فکر مند ہیں۔ ایسے ہی ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں کے کئی شہری اب بھی یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں۔

روسی حملے کے پیشِ نظر کئی روز قبل ہی پاکستانی حکام نے یوکرین کے مختلف شہروں میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ کو ملک سے نکلنے کی ہدایت کی تھی، تاہم اب بھی بہت سے پاکستانی طلبہ یوکرین میں موجود ہیں۔

جنگ کے باعث یوکرین نے فضائی آپریشن بند کر دیے ہیں جس کے بعد ملک سے کوئی بھی ایئرلائن آپریٹ نہیں ہو رہی۔ دارالحکومت کیف سے بڑی تعداد میں لوگ اپنی گاڑیوں، بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقلی کی کوششیں کر رہے ہیں۔

کیف میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے پاکستانی طلبہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کیف چھوڑ کر یوکرین کے شہر ترنوپل پہنچیں۔

سفارت خانے کی جانب سے کی گئی گئی ایک ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ ترنوپل سے طلبہ کی بحفاظت واپسی کے لیے انتظامات کیے جائیں گے۔

پاکستانی حکام کے مطابق لگ بھگ 500 کے قریب پاکستانی طلبہ یوکرین میں موجود ہیں جب کہ یوکرین میں تعینات پاکستانی سفیر کے مطابق پاکستانی شہریوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔

ایسے ہی طلبہ میں کیف میڈیکل یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم شعبان نجم بھی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہاسٹلز سے بیشتر طلبہ جا چکے ہیں، لیکن اُن سمیت 20 پاکستانی طلبہ اس کوشش میں ہیں کہ وہ کیف سے بحفاظت نکل سکیں۔

شعبان کا کہنا تھا کہ کیف سے نکل کر آٹھ، نو گھنٹے کی مسافت پر واقع شہر ترنوپل پہنچنا اتنا آسان نہیں ہے۔

اُن کے بقول وہ کیف سے نکلنے کے لیے کوشاں ہیں کیوں کہ یوکرین کی فضائی حدود بند ہیں، لہذٰا اُنہیں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ وطن واپس کیسے پہنچیں گے۔

کیف میں ہی زیرِ تعلیم طالبِ علم عقیل الرحمٰن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اور دیگر طلبہ کافی گھبرائے ہوئے ہیں کیوں کہ شہر پر مسلسل بمباری ہو رہی ہے۔

پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے والے عقیل کا مزید کہنا تھا کہ وہ بمشکل اپنے خاندان والوں سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ تاہم اُن کی پہلی ترجیح یوکرین سے نکلنا ہے اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح برطانیہ میں مقیم اپنے رشتہ داروں کے ہاں پہنچ جائیں۔ لیکن اُن کا کہنا ہے کہ روسی حملے کے بعد سفارت خانے بند ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی ملک کا ویزہ ملنا مشکل ہے۔

شعبان، کیف کے حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہر میں عجیب سے ویرانی ہے جب کہ پیٹرول پمپس اور اشیائے خورونوش کی دکانوں کے باہر لوگوں کا رش ہے۔

اُن کے بقول اُن کے پاس تو کھانے پینے کی اشیا فی الحال موجود ہیں، لیکن اگر یہ لڑائی طول پکڑتی ہے تو اُنہیں نہیں معلوم کہ مستقبل میں حالات کس رُخ پر جائیں گے۔

عقیل الرحمٰن کہتے ہیں کہ اُنہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ترنوپل پہنچ کر کس سے رابطہ کرنا ہے، لہذٰا ایسی اُدھوری معلومات کی وجہ سے اُن کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

اُن کے بقول وہ پاکستانی سفارت خانے سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مزید معلومات مل سکیں۔

روس نے یوکرین پر حملہ ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر ماسکو میں موجود ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کسی بھی تنازع کے فوجی حل کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس تنازع میں فریق بنے گا۔ تاہم بعض مبصرین کے مطابق اس جنگ کے سیاسی اثرات سے زیادہ پاکستان پر اس کے معاشی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    گیتی آرا

    گیتی آرا ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے نیوز اور فیچر سٹوریز تحریر اور پروڈیوس کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG