رسائی کے لنکس

سوڈان میں فوجی بغاوت، لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان نے ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا


ہزاروں افراد کا جمہوریت کے حق میں احتجاجی مظاہرہ۔ 25 اکتوبر 2021ء
ہزاروں افراد کا جمہوریت کے حق میں احتجاجی مظاہرہ۔ 25 اکتوبر 2021ء

سوڈانی فوج کے لیفٹینینٹ جنرل عبدالفتاح البرہان نے مشترکہ سول ملٹری کونسل کو معزول کرکے ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا ہے۔

مشترکہ کونسل پچھلے دو برسوں سے حکومت کا انتظام چلا رہی تھی۔

وزیراعظم عبداللہ حمدوک سمیت متعدد سیاسی رہنماوں کی گرفتاری کے بعد البرہان نے پیر کے روز ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کیا۔

سوڈان کی وزارت اطلاعات آن لائین مسلسل بیانات جاری کر رہی ہے۔ ان بیانات میں کہا گیا ہے کہ حمدوک کو اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کہ انہوں نے فوجی بغاوت کی حمایت سے انکار کر دیا تھا۔

پیر کو حمدوک کی گرفتاری کے بعد دارالحکومت خرطوم میں ہنگامے اور احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ خرطوم سے صحافی مائیکل اتیت نے وی اے او کو بتایا کہ خاص طور سے جنوبی سوڈان میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور مظاہین کی اکثریت نوجوانوں کی ہے، یہ لوگ شہر کے مرکز کی طرف مارچ کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے گولیوں کے چلنے کی آوازیں سنی ہیں اور مظاہرین سڑکوں پر ٹائر جلا رہے ہیں۔ ان کی اطلاع کے مطابق خرطوم کے اکثر ذرائع ابلاغ بند ہیں، جن میں انٹرنیٹ اور ریڈیو سٹیشن شامل ہیں۔ صرف سرکاری ٹی وی چل رہا ہے، جہاں سے ملّی موسیقی نشر کی جا رہی ہے۔
معزول وزیر آعظم حمدوک ماہر معاشیات ہیں اور ایک سفار ت کار کے طور پر اقوام متحدہ میں بھی کام کر چکے ہیں۔ انہیں اگست 2019 میں ملک کا عبوری وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔

حمدوک نے اس عبوری حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی جو ملک کے سابق آمر عمر البشیر کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد وجود میں آئی تھی۔ اگلے سال آئین کے مطابق ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ حمدوک کو انتخابات میں حصّہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔

امریکہ اور افریقی یونین کا ردِعمل

ادھر خرطوم میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں فوجی بغاوت کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "سویلین حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی اطلاعات پر تشویش ہے لہذٰا جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے ہر اقدام کی امریک مذمت کرتا ہے۔"

افریقی یونین کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بھی حراست میں لیے گئے تمام افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سوڈانی وزیرِ اعظم عبداللہ حمدوک (فائل فوٹو)
سوڈانی وزیرِ اعظم عبداللہ حمدوک (فائل فوٹو)

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کئی پارٹی رہنما اور حکومتی عہدے داروں کو بھی حراست میں لینے کی اطلاعات ہیں جب کہ دارالحکومت خرطوم میں انٹر نیٹ سروس بھی متاثر ہوئی ہے۔

مقامی صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے مطابق سوڈان کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سوڈان طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے سابق صدر عمر البشیر کا 2019 میں تختہ اُلٹنے کے بعد سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس دوران فوج نے ماہر معیشت اور سفارت کار عبداللہ حمدوک کو عبوری وزیرِ اعظم نامزد کرنے کی حمایت کی تھی۔

عمر البشیر کو سوڈان میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا جس کی وجہ سے اُن کے حامی فوجی افسران اور سول حکومت کے تعلقات میں کافی عرصے سے سرد مہری پائی جاتی تھی۔

سوڈان میں آئندہ برس کے اختتام پر نئے انتخابات طے ہیں، تاہم آئین کے مطابق عبداللہ حمدوک کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔

البتہ فوج کے اندر موجود عمر البشیر کے حامی دھڑے کی جانب سے وزیرِ اعظم عبداللہ حمدوک کو مسلسل مزاحمت کا سامنا تھا۔

فوجی بغاوت کی اطلاعات کے بعد لوگ سڑکوں پر جمع ہیں۔
فوجی بغاوت کی اطلاعات کے بعد لوگ سڑکوں پر جمع ہیں۔

گزشتہ ماہ 21 ستمبر کو بھی سوڈان میں اس وقت فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی تھی جب درجنوں فوجی اہل کاروں نے ایک اہم پل پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم یہ کوشش ناکام بنا کر کئی فوجیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے ہزاروں مظاہرین نے ملک میں ممکنہ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ مظاہرین نے حکومت کی حمایت میں نعرے بازی بھی کی تھی۔

سوڈان میں ٹریڈ یونینز کی جانب سے پیر کو عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ گھروں سے باہر نکلیں اور فوجی بغاوت کو ناکام بنائیں۔

اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG