رسائی کے لنکس

انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس، 'آئین الیکشن کا وقت بتاتا ہے جو ختم ہو رہا ہے'


پنجاب اور خیبر پختوںخوا میں انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین انتخابات کا وقت بتاتا ہے جو ختم ہو رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سپریم کورٹ کے نو رُکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت سی وجوہات تھیں جن کی بنا پر ازخود نوٹس لیا گیا۔ اگر ایمرجنسی ہو تو ہائی کورٹ کا فورم بائی پاس کیا جا سکتا ہے۔ہم نے سپریم کورٹ میں آئندہ ہفتے کا شیڈول معطل کر دیا ہے تاکہ اس کیس کو سن سکیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سیکشن 57 انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے، بہت سے نکات اُٹھائے گئے ہیں جن کی تشریح ضروری ہے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں, صدرِ پاکستان، چاروں صوبوں کے گورنرز اور حکمراں جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت جمعے کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

ازخود نوٹس پر بینچ میں شامل جج کے تحفظات

سماعت کے دوران بینچ میں شامل جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے اس ازخود نوٹس کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکرز کی بھی درخواستیں ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر کے نوٹ پر لیا گیا۔اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا جو فریق نہیں ہیں۔ لہذٰا یہ ازخود نوٹس کا کیس نہیں بنتا۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دو درخواستیں اب پرانی ہو گئی ہیں، اب صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتِ حال تبدیل ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے۔

دورانِ سماعت سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اُٹھایا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں آئین کے تحت تحلیل ہوئیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے بھی ریمارکس دیے کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کسی کی ڈکٹیشن پر اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے یا نہیں؟

لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کو بینچ میں شامل کرنے کا مطالبہ

اس دوران پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر بنائے گئے بینچ میں جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بار کونسل کی جانب سے جمعرات کو جاری کیے گئے اعلامیے میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ بینچ میں شامل جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی خود بینچ سے دست بردار ہو جائیں گے۔

وفاقی حکومت نے اس بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کی شمولیت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ خان کہتے ہیں کہ تمام بار کونسلز نے مذکورہ دو ججز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور ان کے خلاف ریفرنس بھی بھجوایا جارہا ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر یہ دونوں ججز بینچ میں ہوئے تو ان سے انصاف کی توقع نہیں ہوگی۔

سپریم کورٹ کے مطابق لارجر بینچ جن سوالات کا جائزہ لے گا ان میں پہلا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے آئینی ذمے داری کس کی ہے؟ دوسرا سوال ہے کہ عام انتخابات کی ذمے داری کب اور کیسے ادا کی جائے گی؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبے کی ذمے داری کیا ہے؟ جب کہ چوتھا سوال یہ ہے کہ اسمبلی ختم ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینا کس کی آئینی ذمے داری ہے؟

سپریم کورٹ سے بدھ کو جاری اعلامیے کے مطابق لارجر بینچ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور اس بارے میں آئین میں دیے گئے آرٹیکلز کی تشریح کرے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ برس حکومت کو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت تحلیل کرنے کی دھمکی دی تھی۔بعدازاں جنوری میں دونوں صوبوں میں حکومتیں تحلیل ہو گئی تھیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد آئین 90 روز میں انتخابات کرانے پر زور دیتا ہے۔ تاہم حکومتی وزرا کی جانب سے بعض ایسے اشارے ملتے رہے ہیں کہ مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔

دوسری جانب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نےالیکشن کمیشن کو نو اپریل کو دونوں صوبوں میں انتخابات کرانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔

صدر کی جانب سے از خود انتخابات کی تاریخ دینے کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے۔

XS
SM
MD
LG