رسائی کے لنکس

اگر کوئی بھی جھٹکا لگ گیا تو نقصان ہو سکتا ہے: عمران خان


عمران خان، فائل فوٹو
عمران خان، فائل فوٹو

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں کہ اُن کا عدلیہ کیلئے بہت احترام ہے۔ اُن کی جماعت کا تو نام ہی انصاف اور قانون کی حکمرانی پر ہے۔ عمران خان نے عدالتِ عالیہ لاہور کے روبرو دو رکنی بینچ کے سامنے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک گھنٹے سے کوشش کر رہےتھے کہ عدالت کیلئے گاڑی سے نکل آئیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی عدالتِ عالیہ لاہور میں پیر کے روز پیشی کے لیے پنجاب پولیس نے صبح سے ہی انتظامات کو حتمی شکل دینے کی کوشش شروع کر دی۔ عمران خان کو عدالتِ عالیہ کے جی پی او چوک والے داخلی راستے سے رسائی کے لیے راستہ بنانا شروع کر دیا۔ اِس دِن وکلاء اور عدالتی عملے کی گاڑیوں کو ہائیکورٹ کی پارکنگ میں ترتیب سے لگایا گیا تا کہ کسی بھی آنے جانے والےکو پریشانی نہ ہو۔ داخلی راستے سے لے کر کمرہ عدالت کے برآمدے تک پنجاب پولیس نے لوہے کے بیرئیر کی مدد سے حفاظتی راستہ بنا رکھا تھا۔

عمران خان کی گاڑی احاطہ عدالت میں پہنچی تو پاکستان تحریک انصاف کے حامی وکلاء اور کارکن عمران خان کی گاڑی کے ساتھ ہی احاطہ عدالت میں پہنچ گئے۔ عمران خان کی گاڑی شاہ محمود قریشی چلا رہے تھے جبکہ اسد عمر اُن کے ہمراہ تھے۔ اِس دوران پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی عمران خان کی گاڑی کی چھت پر چڑھ گئے۔ اِس موقع پر عمران خان کی ذاتی حفاظت پر معمور افراد نے گاڑی کے گرد حصار بنا رکھا تھا۔ عمران خان کے احاطہ عدالت میں پہنچتے ہی پی ٹی آئی کے کارکنوں نے عمران خان کے حق میں اور "یہ جو نامعلوم ہیں اُنہیں سب معلوم ہے" کہ نعرے لگانے شروع کر دیے۔

پولیس کے افسران اور اہلکاروں نے آگے بڑھ کر عمران خان کی گاڑی کو اپنی تحویل میں لینے کی کوشش کی لیکن بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے باعث وہ ایسا نہ کر سکے اور واپس چلے گئے۔ اِس دوران عمران خان کے ذاتی حفاظت پر معمور افراد نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کہ وہ کمرہ عدالت میں پہنچ سکیں، لیکن کارکنان پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ اِس دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں اور عمران خان کے گارڈز کے درمیان دھکم پیل بھی ہوتی رہی۔

اِس دوران لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی جانب سے سری نگر ہائی وے بلاک کرنے، امن و امان خراب کرنے اور پولیس پارٹی پر حملے کے مقدمہ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت شروع کر دی۔ جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سید شہباز علی رضوی نے سماعت کی۔

عمران خان کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے عدالت کو بتایا کہ وہ ریمپ کے پاس گاڑی میں بیٹھے ہیں۔ رش کم کرائیں، عمران خان پیش ہو جاتے ہیں۔ دوسری صورت میں رجسٹرار لاہورہائیکورٹ کو کہیں کہ ان کی حاضری لگا لیں۔

اِس موقع پر سیکٹر ایس پی نے عدالت کو بتایا کہ ایس ایس پی بار آفس کے پاس گاڑی کی سیکیورٹی کیلئے کھڑے ہیں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے ایس پی سے استفسار کیا کہ ایس ایس پی ہائیکورٹ میں عمران خان کی سیکیورٹی کر رہے ہیں؟ عمران خان کو 5 منٹ میں کمرہ عدالت مین پیش کریں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ اگر عمران خان احاطہ عدالت پہنچ گئے ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کریں۔

خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اگر خدانخواستہ کوئی دھکا دے دے تو پلستر پھر خراب ہو جائے گا۔ الیکشن آنے والے ہیں، عمران خان کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اسٹیبلشمنٹ کی حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ عدالت سراہتی ہے کہ عمران خان احاطہ عدالت پہنچ گئے ہیں۔ عبوری ضمانت کیلئے لازم ہے کہ ملزم عدالت میں پیش ہو۔

اِس موقع پر ایس ایس پی شعیب نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت کے باہر موجود ہیں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان عدالت کے باہر موجود ہیں یا گاڑی میں موجود ہیں؟ ایس ایس پی نے جواب دیا کہ عمران خان گاڑی میں بیٹھےہیں، انکے وکلاء انہیں باہر نہیں آنے دے رہے۔ جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کیا عمران خان عدالت میں نہیں آنا چاہتے؟

عدالت نے سماعت آدھے گھنٹے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے ایس ایس پی کو حکم دیا کہ وہ عمران خان کو پیش کریں۔ ایس ایس پی نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وو دس منٹ میں اُنہیں عدالت میں پیش کر دینگے۔ عمران خان کو آتا دیکھ کر عدالت میں جسٹس علی باقر نجفی نے حکم لکھوانا شروع کیا تو عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ 28 تاریخ کو اُن کا پلستر دوبارہ چیک ہونا ہے۔ اُن کی ہڈی تقریباً جڑ چکی ہے۔ اگر کوئی بھی جھٹکا لگ گیا تو بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ عدلیہ کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔

جس پر عدالت نے تین مارچ 2023 تک عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔

اِس کے بعد عمران خان حفاظتی ضمانت کی درخواست اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت کے لیے جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آٖغاز میں جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ عمران خان کو بیٹھا رہنے دیں۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ خان صاحب آپکی درخواست پر دستخط مختلف ہیں۔

جس پر عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ پہلی ضمانت اُن کے دستخط اور منظوری کے بغیر فائل ہوئی۔ جس پر اُنہیں افسوس ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اُنہیں احتیاط کرنی چاہیے۔ عمران خان نے جواب دیا کہ جب پتہ چلا تب اُنہوں نے اظہر صدیق کو درخواست واپس لینے کا کہا۔

جس پر عدالت نے عمران خان کی درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔

عمران خان کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو پی ٹی آئی کے حامی کارکنوں نے اُن کے حق میں نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ عمران خان کو اُن کے ذاتی محافظوں نے پنجاب پولیس کی مدد سے باحفاظت گاڑی تک پہنچایا۔ جس کے بعد وہ احاطہ عدالت سے روانہ گئے۔

XS
SM
MD
LG