رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا


فائل
فائل

سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میاں نواز شریف کی قومی اسمبلی کے حلقے این اے 120 سے رکنیت ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔

پاناما کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر وزیرِاعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسمبلی کی رکنیت سے ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔

عدالت نے شریف خاندان کے بیرونِ ملک مبینہ اثاثوں سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کو چھ ہفتوں میں ریفرنس دائر کرنے اور تمام مواد احتساب عدالت کو بھیجنے کا بھی حکم دیا ہے۔

جمعے کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز افضل نے نیب کو وزیرِاعظم کے علاوہ ان کے تینوں بچوں - حسن، حسین اور مریم - اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔

فیصلے میں احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ چھ ماہ میں کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔

عدالت نے وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی ریفرنس احتساب عدالت بھیجنے کی ہدایت کی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ نواز شریف نے متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی ’’کیپٹیل ایف زیڈ ای‘‘ سے متعلق مالی معاملات کا ذکر 2013ء کے عام انتخابات کے وقت جمع کرائے گئے اپنے کاغذات نامزدگی میں نہیں کیا۔

فیصلے کے مطابق اس بنا پر وہ آئین کے آرٹیکل (f) 62 (1) اور سیکشن 99 (f) کے تحت ایمان دار نہیں رہے، اس لیے نواز شریف کو مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ کی رکنیت سے نا اہل قرار دیا جاتا ہے۔

عدالت کے فیصلے میں الیکشن کمیشن سے کہا گیا کہ وہ نواز شریف کی پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہلی کے بارے میں نوٹیفیکیش فوری طور پر جاری کرے۔

جب کہ صدر مملکت سے کہا گیا ہے کہ وہ جمہوری عمل کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میاں نواز شریف کی قومی اسمبلی کے حلقے این اے 120 سے رکنیت ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔

پاناما کیس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ تھے جب کہ بینچ میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید شیخ شامل تھے۔

جمعے کو فیصلے کے اعلان کے موقع پر سپریم کورٹ کے احاطے اور ارد گرد سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

فیصلہ سننے کے لیے تمام بڑی سیاسی جماعتون کے قائدین بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے جب کہ عدالت کے باہر مسلم لیگ (ن) اور حزبِ اختلاف کی جماعت تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی جمع تھی۔

انتظامیہ کے مطابق سپریم کورٹ کے ارد گرد تین ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات تھے جب کہ عمارت کے اندر بھی رینجرز اور پولیس اہلکار موجود تھے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 20 اپریل کو پاناما پیپرز کے معاملے پر اپنا ابتدائی فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کے غیر ملکی اثاثوں کی مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60 روز کی مہلت دی گئی تھی، جس کے بعد ’جے آئی ٹی‘ نے اپنی رپورٹ 10 جولائی کو عدالت عظمٰی میں پیش کر دی تھی۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے بچوں کے علاوہ دیگر متعلقہ شخصیات کو بھی طلب کیا گیا تھا اور اُن سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

بعد ازاں پاناما کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 'جے آئی ٹی' کی رپورٹ پر پانچ روز تک فریقین کے دلائل اور اعتراضات سننے کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

ادھر واشنگٹن میں، اس معاملے پر ردِ عمل جاننے کے لیے رابطے پر، امریکی محکمہٴ خارجہ کے ایک اہل کار نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ، ’’یہ ایک داخلی معاملہ ہے۔ ہم ایک ہموار عبوری دور کی توقع کرتے ہیں، ایسے میں جب پاکستان کی پارلیمان اگلے وزیر اعظم کو نامزد کرتی ہے‘‘-

XS
SM
MD
LG