رسائی کے لنکس

صادق اور امین نہ رہنے والے کو آئین تاحیات نا اہل قرار دیتا ہے۔ سپریم کورٹ


عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے مطابق عوامی نمائندوں کا صادق اور امین ہونا ضروری ہے اور جو شخص صادق اور امین نہ ہو اسے آئین تاحیات نا اہل قرار دیتا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کی مدت کو تاحیات قرار دے دیا ہے۔

کیس کے جمعے کو سنائے جانے والے فیصلے کے مطابق آئین کی اس شق کے تحت ناا ہل قرار پانے والے افراد آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر آئندہ بھی عدالت کی جانب سے کسی بھی شخص کو نااہل قرار دیا جاتا ہے تو اس کی نااہلی کی مدت تاحیات ہوگی۔

سپریم کورٹ نے رواں سال 14 فروری کو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کی تھی۔

جمعے کو سنایا جانے والا فیصلہ متفقہ ہے جسے جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے فیصلے میں اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف امیدوار کی اہلیت جانچنے کے لیے ہے۔ جو شخص صادق اور امین نہ ہو اسے آئین تاحیات نااہل قرار دیتا ہے۔ اس لیے جب تک عدالتی ڈکلریشن موجود ہے، نااہلی رہے گی۔

اس شق کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستیں دائر ہوئی تھیں۔ درخواست گزاروں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل تھے جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا تھا۔

ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور تحریکِ انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔ جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا تھا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا ہے یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ چھ فروری کو عدالتِ عظمیٰ میں جمع کرائے جانے والے اپنے جواب میں نواز شریف نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں لہذا وہ مقدمے میں فریق بن کر ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔

فیصلے کے بعد وزیرِ مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی فیصلہ ہے جو طیارہ کیس میں بھی آیا تھے۔ آج پاکستان کے منتخب وزیراعظم کو تاحیات نااہل کیا گیا ہے۔جو ٹرائل ہورہا ہے، فیصلہ اس سے پہلے آج آگیا۔

انہوں نے کہا کہ آج کا فیصلہ وہی مذاق ہے جو گزشتہ 17 وزرائے اعظم کے ساتھ ہوا۔

فیصلہ سنائے جانے کے وقت سپریم کورٹ کے باہر پاکستان مسلم لیگ(ن) کے کارکن بھی بڑی تعداد میں موجود تھے جنہوں نے فیصلے سامنے آنے کے بعد عدلیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔

حکمران جماعت کی مشتعل خواتین کارکنوں نے عدالت میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی جس پر پولیس کو وکلا گیٹ بند کرنا پڑا۔

XS
SM
MD
LG