رسائی کے لنکس

جج شوکت صدیقی برطرفی کیس؛ جنرل فیض حمید سمیت دیگر کو نوٹسز جاری


سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی کیس میں انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید سمیت ایجنسی کے ایک اور سابق افسر کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور کاسی اور سابق رجسٹرار ارباب عارف کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس میں جمعرات کو سماعت میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق دو مزید بریگیڈیئرز کے نام بھی شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے اس کیس میں فریق بنانے کے لیے دیے گئے تھے، لیکن عدالت نے انہیں نوٹس جاری نہیں کیے اور چار افراد کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔

شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج تھے اور اپنے سخت بیانات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔

جولائی 2018 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں تقریر کے دوران انہوں نے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ان پر خفیہ ادارے کی طرف سے فیصلوں کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

انہوں نے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کا نام لے کر الزام عائد کیا کہ فیض حمید ان کے گھر آئے اور الیکشن سے پہلے نواز شریف اور مریم نواز کی درخواستوں کو نہ سننے کا کہا تھا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے چھ جولائی 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو 10 سال جب کہ اُن کی بیٹی مریم نواز کو سات سال اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک برس قید کی سزا سنائی تھی۔ سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جب کہ اسی ماہ 25 جولائی کو ملک میں عام انتخابات ہوئے تھے۔

اعلیٰ عدلیہ نے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر شوکت عزیز صدیقی کو بطور جج ہٹا دیا تھا۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے جب کہ سندھ بار ایسویسی ایشن کے بیرسٹر صلاح الدین ویڈیو لنک پر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں؟ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی کی گئی تقریر پر برطرف کیا گیا۔ سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں؟ کیا وہ جنرلز جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا؟

اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے لگائے گئے الزامات درست ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے۔ کیا کسی اور کو فائدہ پہنچانا مقصد تھا؟ آپ کا کہنا ہے کہ عدالتوں پر دباؤ ڈال کر کسی کو نااہل رکھ کر کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانا مقصد تھا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے الزامات سے لگ رہا ہے اصل مقصد کسی اور کو وزیرِ اعظم کی کرسی پر بٹھانا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آپ کے الزامات بہت سنگین نوعیت کے ہیں۔ کیا ایک شخص کو جیل میں رکھ کر اپنے پسندیدہ شخص کو جتوانا مقصد تھا؟ اصل سوال تو یہ ہے کہ فائدہ کس کو ملا۔ اصل فائدہ اٹھانے والا تو کوئی اور ہے۔ آپ سہولت کاروں کو فریق بنا رہے ہیں، اصل بینیفشری تو کوئی اور ہے۔ آپ نے درخواست میں اصل بینیفشری کا ذکر ہی نہیں کیا۔

'سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے لوگوں پر پیٹھ پیچھے الزامات لگائے جن پر الزامات لگائے گئے، وہ کسی اور کے لیے سہولت کاری کر رہے تھے۔ سہولت کاری کر کے کسی کو تو فائدہ پہنچایا گیا۔ آئین پاکستان کی پاسداری نہ کرکے وہ اس جال میں خود پھنس رہے ہیں۔ سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہو چکا ہے۔ فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی۔

جج شوکت عزیز صدیقی نے اپنی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
جج شوکت عزیز صدیقی نے اپنی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔


چیف جسٹس نے کہا کہ ایک امیدوار کو سائیڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے۔ حامد خان نے کہا کہ 70 سال سے ملک میں یہی ہو رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا 70 سال سے جو ہورہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟ فوج کو چلاتا کون ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔

'سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے'

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت فرد نہیں ہے۔ جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں۔ جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے۔ یہ آسان راستہ نہیں ہے۔ شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے، ان کے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے۔

سہولت کاری ہوئی تو بینفیشری کون تھا؟

وکیل بار کونسل صلاح الدین نے عدالت میں کہا کہ سابق جج نے اپنے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا، ہم ان کو فریق بنا رہے ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے عمران خان سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی۔ مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جن پانچ اشخاص کا نام آ رہا ہے انہیں فریق بنایا جائے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابات سے قبل جیل میں قید رکھنے کے لیے عدلیہ کا کندھا کیوں استعمال ہوا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ میں اس وقت یہ نہیں کہہ سکتا نواز شریف، مریم نواز کو جیل میں رکھنے کا اصل مقصد عمران خان کو فائدہ پہنچانا تھا۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیے کہ بلاوجہ لوگوں کو نوٹس دے کر تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کو بطور کندھا استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ مناسب جواب نہ ملا تو یہ سمجھیں گے آپ ہمیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس معاملے کو نہ دیکھیں تو اس کے علاوہ تو پھر شوکت صدیقی کا کیس صرف پینشن اور مراعات کی حد تک رہ گیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ شوکت صدیقی نے تقریر میں کہا مجھے کہا گیا نواز شریف، مریم نواز جیل سے باہر آئے تو دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ دو سال کی محنت کس کے لیے کی گئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی کا بھی نام لکھ دیں تو اسے نوٹس کر دیں؟ کیا شوکت صدیقی بیرسٹر صلاح الدین کا نام لکھ دیں تو آپ کو بھی نوٹس کر دیں؟ کس سیاسی جماعت کو نکالنے کے لیے یہ سب ہوا؟

بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ جوڈیشل سسٹم پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا؟ کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کے لیے یہ ہوا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پینشن مل سکے تو یہ 184 تھری کا دائرہ کار نہیں بنتا۔ ہمیں نہ بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں۔ آپ معاونت کریں جو کرنا ہے ہم کریں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ عدالتی نظام کو استعمال کرنے کا الزام ہے۔ ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نہ آئے؟ وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ یہ الزام فیض حمید پر ہے۔

'پینشن کا مسئلہ ہے یا پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں'

دورانِ سماعت اس موقع پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر مسئلہ صرف پینشن کا ہے تو سرکار سے پوچھ لیتے ہیں، آپ کو دے دیں گے۔ اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ مقصد صرف پینشن ہے تو ٹھیک ہے وہ مل جائے گی ہم کسی کو بلانے کی زحمت کیوں دیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہتے ہیں یہاں لوگ آلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آلے کے طور پر استعمال کون کرتا ہے؟ ماضی میں جو ہوتا رہا وہ سب ٹھیک کرنا ہے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ آپ نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لینے سے روکا جب کہ اس ملک کی حقیقت یہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے منہ میں الفاظ نہ ڈالیں۔ یہ آئینی عدالت ہے، یہاں آئینی زبان استعمال کریں۔ ہمارا مؤقف واضح ہے کہ کہاں سیاسی دائرہ اختیار ختم اور عدالتی دائرہ شروع ہوتا ہے۔ آپ کا کیس کب سے مقرر نہیں ہوا، یہ الزام ہمارے سامنے کھڑے ہو کر لگائیں ہم معذرت کریں گے۔

'جنرل باجوہ سے براہ راست کوئی کڑی نہیں جڑ رہی'

چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے زیادہ نام فیض حمید کا لیا ہے۔ قمر باجوہ سے متعلق گفتگو تو سنی سنائی ہے۔ قمر باجوہ نے شوکت عزیز صدیقی سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وہ بینچ بنایا تھا جو فیض حمید چاہتے تھے؟ حامد خان نے بتایا کہ جو فیض حمید چاہتے تھے وہ ہوا۔ فیض حمید چاہتے تھے الیکشن 2018 سے پہلے نوازشریف کی ضمانت نہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ خود معاملہ الیکشن 2018 تک لے آئے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ نوازشریف کی اپیل پر کیا فیصلہ ہوا؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ اپیلوں پر ابھی فیصلہ ہوا اور نوازشریف بری ہو گئے ہیں۔

دورانِ سماعت ایڈووکیٹ حامد خان نے الزامات کی تفصیل عدالت میں پڑھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ صرف ایک انفرادی شخص فیض حمید تھا جو سب کچھ کر رہا تھا۔ باقی تو آپ کی باتیں سنی سنائی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا یہ جملہ بہت معنی خیز ہے کہ آپ کو کہا گیا انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم کو جیل سے باہر نہیں آنا چاہیے۔

عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت موسمِ سرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دی۔

فورم

XS
SM
MD
LG